پاکستان کی 77 سالہ عدالتی تاریخ میرے لیے قابل فخر نہیں ہے، جسٹس اطہر من اللہ
فوٹو : سوشل میڈیا
کراچی : سپریم کورٹ کے جج جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا ہے کہ پاکستان کی 77 سالہ عدالتی تاریخ میرے لیے قابل فخر نہیں ہے، جسٹس اطہر من اللہ کا کراچی میں سیمنار سے خطاب۔
انہوں نے کہا کہ ملک کی سب سے بڑی بار کا اعزاز کراچی بار کے پاس ہے اور آئین کی بالادستی کے حوالے سے اس کا کردار ہم سب پر احسان ہے۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ کا کہنا تھا کہ اگر ان سے عدالتی تاریخ میں ان کے ہیروز کے بارے میں پوچھا جائے تو وہ ان ججوں کا ذکر کریں گے جنہوں نے مشکل فیصلوں میں اصولی مؤقف اپنایا، جن میں جسٹس بچل، جسٹس ویلانی، جسٹس کونسٹنائن اور جسٹس بخش شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پی سی او کے وقت سپریم کورٹ کے چھ ججوں نے حلف لینے سے انکار کیا جن میں سے پانچ کا تعلق سندھ سے تھا، حالانکہ ان میں سے کچھ آئندہ چیف جسٹس بن سکتے تھے مگر انہوں نے اصولی موقف اپنایا۔
انہوں نے کہا کہ وکلاء تحریک کے دوران 90 افراد نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا، اور یہ قربانیاں ہم کبھی نہیں بھلا سکتے۔
ان کا کہنا تھا کہ آئین اور قانون کی بالادستی ہی واحد راستہ ہے، لیکن گزشتہ 77 سالوں میں پاکستان میں آئینی گورننس قائم نہیں ہو سکی۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ انہوں نے اللہ کو حاضر ناظر جان کر جج کے طور پر حلف اٹھایا ہے، لیکن افسوس کہ عدلیہ نے ماضی میں دباؤ قبول کیا۔
انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ ذوالفقار بھٹو کیس میں ججز نے دباؤ تسلیم کیا، حالانکہ اس وقت جنرل ضیاء الحق نے انٹرویو میں کہا تھا کہ کوئی دباؤ نہیں۔ اس کیس میں بھی تین ججوں نے مخالفت کی تھی جن میں جسٹس حلیم اور جسٹس تراب پٹیل شامل تھے۔
انہوں نے کہا کہ آئین کی اصل روح یہی ہے کہ حقِ حکمرانی عوام کا ہے اور کوئی ادارہ سیاسی انجینئرنگ نہ کرے، لیکن بدقسمتی سے آج تک یہ خواب پورا نہیں ہوا۔ ان کے مطابق جہاں بھی آمریت آتی ہے وہاں الیکشن تو ہوتے ہیں مگر عوامی نمائندگی شفاف طریقے سے سامنے نہیں آتی۔
Comments are closed.