ماموند تحصیل میں فوجی آپریشن ’سربکف‘ کے دوبارہ شروع ہونے کے خدشات

14 / 100 SEO Score

فوٹو : ڈان نیوز فائل

خار : ماموند تحصیل میں فوجی آپریشن ’سربکف‘ کے دوبارہ شروع ہونے کے خدشات نے مقامی آبادی کو پریشانی میں مبتلا کر دیا ہے، باجوڑ امن جرگہ اور عسکری کمانڈروں کے درمیان افغانستان واپسی کے حوالے سے ہونے والے مذاکرات ہفتے کے روز تعطل کا شکار ہونے کے بعد یہ صورت حال سامنے آئی.

اس حوالے سے ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ابتدائی طور پر دونوں فریقوں کے درمیان مکمل تصفیے تک جنگ بندی پر اتفاق کے بعد انسداد دہشت گردی آپریشن مؤخر کر دیا گیا تھا۔

امن مذاکرات کی ناکامی نے مقامی آبادی کو خوف اور غیر یقینی کی کیفیت میں مبتلا کر دیا ہے، اطلاعات کے مطابق، لوئی ماموند تحصیل کے 16 علاقوں سے تعلق رکھنے والے کئی خاندان ہفتے کے روز پرامن مقامات کی طرف نقل مکانی کر گئے.

مزید خاندانوں کے بھی آج اپنے گھروں کو چھوڑنے کی توقع ہے، ذرائع کا کہنا ہے کہ باجوڑ امن جرگہ اور عسکریت پسند رہنماؤں کے درمیان علاقے سے عسکریت پسندوں کے انخلا کے لیے ہونے والے مذاکرات کی ناکامی کے بعد ’آپریشن سربکف‘ دوبارہ شروع کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں بچا.

اس کا مقصد علاقے میں موجود عسکریت پسندوں کو ختم کیا جا سکے جو امن اور عوام کی جانوں کے لیے سنگین خطرہ ہیں۔
جرگہ رہنما کا کہنا ہے کہ عسکریت پسندوں سے مذاکرات ’کچھ مسائل‘ کے باعث تعطل کا شکار ہوئے۔

جمعہ کی رات، 50 رکنی باجوڑ جرگہ کے سربراہ صاحبزادہ ہارون رشید نے صحافیوں کو بتایا کہ عسکریت پسندوں سے مذاکرات ’بعض اہم معاملات پر سنگین ڈیڈ لاک‘ کی وجہ سے مطلوبہ نتائج کے بغیر ختم ہو گئے.

جمعے کی شام عسکریت پسند رہنماؤں اور اعلیٰ حکام کے ساتھ علیحدہ علیحدہ ملاقاتوں کے بعد وہ میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔انہوں نے ساتویں دور کے مذاکرات کے حوالے سے بتایا کہ ’ہم (باجوڑ امن جرگہ کے اراکین) نے پوری دیانت داری اور عزم کے ساتھ کوشش کی.

تاکہ عسکریت پسند رہنماؤں کو افغانستان پرامن طریقے سے واپسی پر آمادہ کر کے مذاکرات کو کامیاب بنایا جا سکے، لیکن بدقسمتی سے ہم اپنے مشن میں کامیاب نہ ہو سکے کیونکہ بعض اہم مسائل پر سنگین ڈیڈ لاک پیدا ہو گیا۔

جرگہ رہنما کے مطابق اس مسئلے پر عسکریت پسند رہنماؤں کے ساتھ مزید کوئی بات چیت نہیں ہوگی، جب تک کہ ڈیڈ لاک ختم نہ ہو جائے۔تمام جرگہ اراکین، جن میں پی ٹی آئی کے مقامی ایم پی اے ڈاکٹر حمید الرحمٰن اور سابق ایم این اے گل ظفر خان بھی شامل تھے.

صاحبزادہ ہارون رشید نے دونوں فریقوں، سیکیورٹی فورسز اور عسکریت پسندوں، سے اپیل کی کہ وہ برداشت کا مظاہرہ کریں اور لڑائی سے گریز کریں، کیوں کہ اس سے مقامی عوام کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

تاہم، انہوں نے صحافیوں کو بتایا کہ دونوں فریقوں نے جرگہ کو یقین دلایا ہے کہ کسی بھی ممکنہ لڑائی کی صورت میں عام شہریوں اور ان کی املاک کو نقصان نہیں پہنچایا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ جرگہ فعال رہے گا اور مقامی رہائشیوں کے ساتھ مل کر ایک لائحہ عمل تیار کرے گا تاکہ اگر سیکیورٹی فورسز اور دہشت گردوں کے درمیان کسی ممکنہ تصادم میں عوام یا ان کی املاک متاثر ہوں تو فوری اقدامات کیے جا سکیں۔

صاحبزادہ ہارون رشید نے کہا کہ جرگہ کے اراکین، خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ سے پشاور میں ملاقات کے بعد باجوڑ اور اس کے عوام کے بڑے مفاد میں اپنی سرگرمیاں دوبارہ شروع کریں گے، تاہم اس ملاقات کے حوالے سے اس خبر کی اشاعت تک کوئی بیان سامنے نہیں آیا تھا۔

Comments are closed.