بھارتی لیجنڈ کرکٹرز کا پاکستان کے خلاف کھیلنے سے انکار — اقلیتوں پر حب الوطنی کا دباؤ؟

بھارتی کرکٹرز یوسف پٹھان،، عرفان پٹھان، یوراج سنگھ ، ہربھجن سنگھ اورشیکھرڈوون
54 / 100 SEO Score

فوٹو : فائل

محبوب الرحمان تنولی

بھارتی لیجنڈ کرکٹرز کا پاکستان کے خلاف کھیلنے سے انکار — اقلیتوں پر حب الوطنی کا دباؤ؟

ورلڈ چیمپئن شپ آف لیجنڈز ایک ایسی انٹرنیشنل کرکٹ لیگ ہے جو دنیا بھر کے ریٹائرڈ اسٹار کرکٹرز کو ایک پلیٹ فارم پر لاتی ہے، تاکہ شائقین کو ماضی کی یادگار جھلکیاں دوبارہ دیکھنے کو ملیں۔

 اس مرتبہ بھارتی لیجنڈ کرکٹرز یووراج سنگھ، ہربھجن سنگھ، شیکھر دھون، عرفان پٹھان اور یوسف پٹھان نے اس ایونٹ میں شرکت سے انکار کر دیا۔

خاص طور پر پاکستان کے خلاف میچ کھیلنے سے۔ اس انکار کے پیچھے کئی سوالات اور سیاسی و سماجی زاویے سامنے آ رہے ہیں۔

یووراج سنگھ اور ہربھجن سنگھ کا تعلق بھارتی ریاست پنجاب سے ہے۔ یووراج چندی گڑھ جبکہ ہربھجن جالندھر میں پیدا ہوئے۔ دونوں سکھ مذہب سے تعلق رکھتے ہیں، جو بھارت میں ایک اقلیتی برادری ہے۔

شیکھر دھون اگرچہ ہندو کرکٹر ہیں، لیکن وہ بھی پنجابی فیملی سے تعلق رکھتے ہیں اور دہلی میں پیدا ہوئے۔ دوسری جانب عرفان پٹھان اور یوسف پٹھان کا تعلق گجرات کے شہر وڈودرا سے ہے، اور یہ دونوں بھارتی مسلمان کرکٹرز ہیں۔

یوسف پٹھان نے سیاست میں قدم رکھ دیا ہے اور موجودہ وقت میں بھارتی پارلیمنٹ (لوک سبھا) کے رکن ہیں۔ جبکہ ہربھجن سنگھ راجیہ سبھا (ایوانِ بالا) کے رکن رہ چکے ہیں۔

یہ دونوں شخصیات نہ صرف بھارت میں مقبول کرکٹرز ہیں بلکہ اب ایک سیاسی شناخت بھی رکھتی ہیں، جس کی وجہ سے ان کے ہر عمل کو زیادہ گہرائی سے دیکھا جاتا ہے۔

یہ بات خاص توجہ کی حامل ہے کہ مذکورہ تمام کھلاڑی یا تو بھارتی اقلیتوں سے تعلق رکھتے ہیں یا ایسی ریاستوں سے جہاں مسلم یا سکھ آبادی خاصی نمایاں ہے۔

بھارت میں اقلیتوں پر "حب الوطنی ثابت کرنے کا دباؤ” کوئی نئی بات نہیں۔ ایسے میں جب ان کھلاڑیوں نے پاکستان کے خلاف کھیلنے سے انکار کیا، تو یہ عمل بظاہر ایک سیاسی پیغام لگتا ہے — ایسا پیغام جو یہ ظاہر کرے کہ "ہم بھی بھارت کے وفادار ہیں”۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ بھارت کے زیادہ تر ہندو لیجنڈز نے اس ٹورنامنٹ میں شرکت کی، اور پاکستان کے خلاف کھیلنے پر کسی قسم کا اعتراض نہیں کیا۔

اس سے یہ تاثر مزید تقویت پکڑتا ہے کہ شاید بھارت میں اقلیتی کھلاڑیوں کو "ثابت” کرنا پڑتا ہے کہ وہ ملک کے ساتھ کھڑے ہیں، خاص طور پر جب معاملہ پاک-بھارت کشیدگی سے متعلق ہو۔

یہ صورتحال نہ صرف کھیل کی روح کے خلاف ہے بلکہ اقلیتوں کے ساتھ امتیازی رویے کی عکاسی بھی کرتی ہے۔ کھیل کو سیاست سے الگ رکھنا ایک دیرینہ مطالبہ ہے۔

مگر حقیقت اس کے برعکس نظر آتی ہے۔ یہ انکار کرکٹ سے زیادہ بیانیے کا حصہ لگتا ہے — ایک ایسا بیانیہ جس میں اقلیتوں کو ہر قدم پر اپنی وفاداری کا ثبوت دینا پڑتا ہے۔

ورلڈ چیمپئن شپ آف لیجنڈز 2024 میں یہ واقعہ ایک لمحہ فکریہ ہے، نہ صرف کھیلوں کی دنیا کے لیے بلکہ بھارتی سماج کے لیے بھی۔

جب تک کرکٹ کو خالص کھیل نہ سمجھا جائے اور کھلاڑیوں کو مذہب، نسل یا سیاست سے بالاتر ہو کر پرکھا نہ جائے، ایسے تنازعات جنم لیتے رہیں گے، جو کھیل کے حسن کو ماند کرتے رہیں گے۔

(World Championship of Legends 2024)

Comments are closed.