پاکستان اور بھارت اپنی سرحدوں پر افواج کی تعداد کم کر رہے ہیں،جنرل ساحر شمشاد مرزا

45 / 100 SEO Score

فائل:فوٹو
سنگاپور : چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل ساحر شمشاد مرزا نے کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت اپنی سرحدوں پر افواج کی تعداد کم کر رہے ہیں اور ہم 22 اپریل سے پہلے والی پوزیشن پر واپس آ چکے ہیں تاہم حالیہ بحران نے مستقبل میں کشیدگی میں اضافے کا خطرہ بڑھا دیا ہے۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے ، سندھ طاس معاہدہ کی معطلی ہمارے لیے ریڈ لائن ہے۔

غیرملکی خبررساں ادارے ”رائٹرز “سے گفتگو میں جنرل ساحر شمشاد نے کہا کہ بھارت کی جانب سے پہلی بار سندھ طاس معاہدے کو معطل کیا گیا، جو کہ ایک انتہائی تشویشناک اور غیر ذمہ دارانہ قدم ہے، یہ فیصلہ پہلگام حملے کے صرف 24 گھنٹے کے اندر بغیر کسی ثبوت کے کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے ، سندھ طاس معاہدہ کی معطلی ہمارے لیے ریڈ لائن ہے، پاکستان نے معاملے کی غیر جانبدار اور آزادانہ تحقیقات کی پیشکش کی تھی تاکہ سچ سامنے آ سکے مگر بھارت نے اس پر مثبت ردعمل دینے کے بجائے جارحانہ اقدامات کو ترجیح دی۔

سنگاپور میں شنگریلا ڈائیلاگ فورم میں شرکت کے لیے موجود پاکستان کی مسلح افواج کے سربراہ جنرل ساحر شمشاد مرزا نے کہا کہ دونوں ملکوں نے افواج کی سطح میں کمی کا عمل شروع کر دیا ہے، ہم تقریباً 22 اپریل سے پہلے کی صورتحال پر واپس آ چکے ہیں، ہم اْس کے قریب پہنچ چکے ہیں، یا شاید پہنچ چکے ہوں گے۔

جنرل ساحر مرزا نے کہا کہ اگرچہ اس تنازع کے دوران جوہری ہتھیاروں کے استعمال کی طرف کوئی پیش رفت نہیں ہوئی تھی تاہم یہ ایک خطرناک صورتحال تھی، اس بار کچھ نہیں ہوا لیکن آپ کسی بھی وقت کسی سٹریٹجک غلطی کو رد نہیں کر سکتے، کیونکہ جب بحران ہوتا ہے، تو ردِعمل مختلف ہوتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ مستقبل میں کشیدگی میں اضافے کا خطرہ بڑھ گیا ہے کیونکہ اس بار کی لڑائی صرف متنازعہ علاقے کشمیر تک محدود نہیں رہی، دونوں فریقوں نے ایک دوسرے کے مرکزی علاقوں میں فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا، لیکن کسی نے بھی کسی سنجیدہ نقصان کو تسلیم نہیں کیا۔

جنرل ساحر شمشاد نے کہا کہ یہ تنازع دو جوہری طاقتوں کے درمیان حد کو کم کرتا ہے، مستقبل میں یہ صرف متنازعہ علاقے تک محدود نہیں رہے گا، یہ پورے بھارت اور پورے پاکستان تک پھیل جائے گا، یہ ایک انتہائی خطرناک رجحان ہے۔

انہوں نے خبردار کیا کہ مستقبل میں بین الاقوامی ثالثی مشکل ہو سکتی ہے کیونکہ دونوں ممالک کے درمیان بحران سے نمٹنے کا کوئی موٴثر طریقہ کار موجود نہیں، بین الاقوامی برادری کے لیے مداخلت کا وقت بہت کم ہو گا اور میں کہوں گا کہ نقصان اور تباہی اْس سے پہلے ہی واقع ہو سکتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ کہا کہ پاکستان بات چیت کے لیے تیار تھا، لیکن ہاٹ لائنز کے علاوہ بات چیت، جو دونوں افواج کے ڈائریکٹر جنرل کے درمیان ہوتی ہیں، لیکن سرحد پر چند ٹیکٹیکل سطح کے رابطوں کے سوا کوئی اور مواصلاتی ذریعہ موجود نہیں تھا۔

انہوں نے کہا کہ کشیدگی کم کرنے کے لیے کوئی پس پردہ یا غیر رسمی بات چیت نہیں ہو رہی تھی، شنگریلا فورم کے لیے سنگاپور میں موجود بھارتی چیف آف ڈیفنس اسٹاف جنرل انیل چوہان سے ملاقات کی بھی کوئی منصوبہ بندی نہیں۔

جنرل ساحر شمشاد مرزا نے واضح کیا کہ یہ مسائل صرف میز پر بیٹھ کر مذاکرات اور مشاورت سے حل ہو سکتے ہیں، یہ میدانِ جنگ میں حل نہیں ہو سکتے۔

Comments are closed.