ملٹری کورٹس کیس، آرمی ایکٹ کا اطلاق صرف فوج پر ہوتا ہے،جسٹس جمال مندوخیل

48 / 100

فائل:فوٹو
اسلام آباد:سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں کے کیس کی سماعت کے دوران جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آرمی ایکٹ کا اطلاق صرف فوج پر ہوتا ہے، فوجی افسران کو بنیادی حقوق اور انصاف ملتے ہیں یا نہیں ہم سب کو مدنظر رکھیں گے۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سات رکنی آئینی بینچ کیس کی سماعت کر رہا ہے۔ وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث کے دلائل جاری ہیں،ملٹری کورٹس کیس، آرمی ایکٹ کا اطلاق صرف فوج پر ہوتا ہے،جسٹس جمال مندوخیل کے ریمارکس سامنے آئیے ہیں۔
سات رکنی آئینی بینچ میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس شاہد بلال حسن شامل ہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ملٹری کورٹس میں ٹرائل کے طریقہ کار پر مطمئن کریں۔
جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ جو آفیسر ٹرائل چلاتا ہے کورٹ میں وہ خود فیصلہ نہیں سناتا، ٹرائل چلانے والا افسر دوسرے بڑے افسر کو کیس بھیجتا ہے وہ فیصلہ سناتا ہے، جس آفیسر نے ٹرائل سنا ہی نہیں وہ کیسے فیصلہ دیتا ہوگا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ مجھے 34 سال اس شعبے میں ہوگئے مگر پھر بھی خود کو مکمل نہیں سمجھتا، کیا اس آرمی افسر کو اتنا تجربہ اور عبور ہوتا ہے کہ سزائے موت تک سنا دی جاتی ہے۔
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ ملٹری ٹرائل کے طریقہ کار کو دلائل کے دوسرے حصے میں مکمل بیان کروں گا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آرمی ایکٹ کا اطلاق صرف فوج پر ہوتا ہے، فوجی افسران کو بنیادی حقوق اور انصاف ملتے ہیں یا نہیں ہم سب کو مدنظر رکھیں گے۔
جسٹس مسرت ہلالی نے سوال اٹھایا کہ اس نکتے پر بھی وضاحت کریں کہ فوجی عدالت میں فیصلہ کون لکھتا ہے؟ میری معلومات کے مطابق کیس کوئی اور سنتا ہے اور سزا جزا کا فیصلہ کمانڈنگ افسر کرتا ہے، جس نے مقدمہ سنا ہی نہیں وہ سزا جزا کا فیصلہ کیسے کر سکتا ہے؟
وکیل وزارت دفاع نے کہا کہ فیصلہ لکھنے کے لیے جیک برانچ کی معاونت حاصل ہوتی ہے۔

Comments are closed.