پی ٹی آئی کے لوگ اپنے بچوں کو باہر کیوں نہیں لے کر آتے،فیصل واوڈا

45 / 100

فائل:فوٹو
اسلام آباد:سینیٹر فیصل واوڈا نے کہا ہے کہ بانی پی ٹی آئی کو بچانے کیلئے کوئی مخلص نہیں ہے 5 سے 7 ہزار لوگ مشینری لا کر وفاق پر چڑھائی کی بات کررہے ہیں۔ پی ٹی آئی کے لوگ اپنے بچوں کو باہر کیوں نہیں لے کر آتے۔ سیاست میں سب کے بچے اورباقی لوگ آگئے

اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب میں سینیٹر فیصل واوڈا کا کہنا تھا کہ ہر روز کوئی نہ کوئی آخری کال آ جاتی ہے۔ ابھی 24 نومبر کی کال آئی ہوئی ہے۔ میں پرانا پی ٹی آئی کا ورکر رہ چکا ہوں۔ میں چاہتا ہوں بانی پی ٹی آئی کے جیل میں ہونے کا کوئی فائدہ نہ اٹھائے۔ عموماً ایسا ہی ہوتا ہے لیڈر کے جیل میں ہونے سے لوگ لاشوں پر بھی سیاست کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی کو بچانے کیلئے کوئی مخلص نہیں ہے۔ سب کمپرومائز لوگ پارٹی میں موجود ہیں۔پی ٹی آئی کے لوگ اپنے بچوں کو باہر کیوں نہیں لے کر آتے۔ سیاست میں سب کے بچے اورباقی لوگ آگئے۔ کیا یہ کسی کے باپ کا ملک ہے۔ قوم کے سامنے یہ تماشا کلئیر ہونا چاہیے۔

فیصل واوڈا نے مزید کہا کہ امریکی کانگریس کے لوگ انسانی حقوق کے چیمپین بنے بیٹھے ہیں۔ مجھے اپنا دوست بنائیں اور اچھی نصیحت کریں لیکن غلامی اور مداخلت ہمارے ملک میں نہیں ہوسکتی۔ کانگریس اور اقوام متحدہ آگئے کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہورہی ہے۔ عافیہ صدیقی اور شام پر کوئی خط نہیں آتا۔ ڈونلڈ ٹرمپ پر امریکا میں حملہ ہوا وہ بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزی تھی۔ میں اس میں آپ ہر الزام لگا دیتا ہوں۔میں بھی اقوم متحدہ کو اس حوالے سے خط لکھ دیتا ہوں۔ اس سے کسی کو کیا فرق پڑے گا۔

فیصل واوڈا نے مزید کہا کہ صدام حسین کے ساتھ مل کر 32 سال خلاف ورزیاں کیں۔ افغانستان میں تباہی برپا کی اور اپنا سامان چھوڑ کر نکل گئے۔ اس پر کوئی بات نہیں کرتا۔ ہمارے ملک نے دہشتگردی میں ہزاروں قربانیاں دی ہیں۔ ہم آپ کے ملک میں مداخلت نہیں کرتے لیکن آپ یہاں کیوں مداخلت کر رہے ہیں۔ آپ بھی ڈونلڈ ٹرمپ کی خواتین پر جعلی مقدمات بنا رہے تھے۔ ہم نے بھی جعلی مقدمات کاٹے۔آپکی سیکریٹ سروسز ڈونلڈ ٹرمپ کو نشانہ بناتی رہی۔آپ چاہ کیا رہے ہیں بانی پی ٹی آئی کی بہتری کر رہے یا ان کا نقصان کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ملک میں دہشت گردی کا سلسلہ بھی چل رہا ہے۔ میں حکومت کی طرف سے بات نہیں کررہا ہے۔ عمران خان کی بات سے اتفاق کرتا ہوں مداخلت ہوئی تھی۔

Comments are closed.