آئینی بینچ نے کئی کیسز غیر موثر ہونے پر نمٹا دئیے
فائل:فوٹو
اسلام آباد:سپریم کورٹ آف پاکستان نے نارکوٹکس سے متعلق کیس غیر موثر ہونے کی بنیاد پر نمٹا دیا۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 6 رکنی آئینی بینچ نے سماعت کی۔
جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی آئینی بینچ میں شامل ہیں۔
جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس نعیم اختر بھی 6 رکنی آئینی بینچ کا حصہ ہیں۔
قاضی جان محمد کے تقرر کے خلاف درخواست بھی غیر موثر ہونے کے باعث نمٹا دی گئی۔
چھ رکنی آئینی بینچ نے ڈی جی ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی محمد سہیل کی تقرری کے خلاف کیس بھی نمٹا دیا۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ یہ پالیسی میٹر ہے، ہم مداخلت نہیں کر سکتے۔
آئینی بینچ نے عام انتخابات 2024ء ری شیڈول کرنے کی درخواست غیر موثر ہونے پر خارج کر دی۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ وکیل نہیں آئے، ان پر بھاری جرمانہ ہونا چاہیے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ انتخابات ہو چکے ہیں یہ درخواست غیرموثر ہو چکی ہے۔
موسم کی خرابی کے باعث انتخابات فروری کے بجائے مئی میں کرانے کی استدعا کی گئی تھی۔
ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈر نظرِ ثانی کیس غیر موثر ہونے پر نمٹا دیا گیا۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ یہ معاملہ تو اب غیر موثر ہو چکا ہے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ پارلیمنٹ کی قانون سازی کے اختیار پر فیصلے میں آبرزویشن ہے، پارلیمنٹ کے اختیار پر سوال کی حد تک نظر ثانی چاہتے ہیں۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ اب تو آپ نے آئین میں بھی ترمیم کر لی۔
جسٹس امین نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس میں پارلیمنٹ کی قانون سازی کا اختیار تسلیم کیا گیا ہے، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس میں پارلیمنٹ کی قانون سازی پر اصول طے ہے۔
آئینی بینچ نے غیر ملکی اثاثوں اور بینک اکاوٴنٹس رکھنے والوں کو الیکشن لڑنے کی ممانعت کی درخواست جرمانے کے ساتھ خارج کر دی۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ قانون سازی کرنا پارلیمنٹ کا کام ہے، الیکشن کمیشن غیرملکی اکاوٴنٹس اور اثاثوں پر قانون سازی کیسے کر سکتا ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ درخواست گزار نے درخواست میں کوئی قانونی بات ہی نہیں کی۔
درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ غیر ملکی اثاثوں اور بینک اکاوٴنٹس کے حامل افراد کو الیکشن لڑنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ کن لوگوں کے غیرملکی اثاثے یا بینک اکاوٴنٹس ہیں، کسی کا نام نہیں لکھا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ پارلیمنٹ کو قانون سازی کرنے کا نہیں کہہ سکتے۔
جسٹس امین الدین نے کہا کہ معاملے پر قانون سازی کے لیے درخواست گزار اپنے حلقے کے منتخب نمائندہ سے رجوع کرے۔
سرکاری ملازمین کی غیرملکی شہریت کے حامل افراد سے شادی روکنے کی درخواست بھی خارج کر دی گئی۔
سپریم کورٹ کی آئینی بینچ نے درخواست جرمانے کے ساتھ خارج کی۔
درخواست گزار محمود اختر ویڈیو لنک پر آئینی بینچ کے سامنے پیش ہوئے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ یہ پارلیمنٹ کا اختیار ہے، عدالت کیسے کسی کو منع کرے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ جو درخواست گزار کی استدعا ہے کیا ایسا ممکن ہے؟ کیا کسی سرکاری ملازم کو غیرملکی سے شادی کرنے سے روک دیا جائے؟ اگر روکنے کا قانون موجود ہے تو قانون بتا دیں؟
درخواست گزار کے وکیل نے استدعا کی کہ میں سخت بیمار ہوں،مجھے وقت دیا جائے۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ شادی کرنے پر پابندی کیسے لگائی جاسکتی ہے، اس پر جرمانہ ہونا چاہیے۔
Comments are closed.