اگر آپ کی وردی اور اس پر پاکستان کا جھنڈا نہ ہوتا تو آپ کو اٹھا کر باہر پھینک دیتا

53 / 100

فوٹو : سکرین شاٹ

اسلام آباد : قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی داخلہ کے اجلاس میں اسلام آباد پولیس کی کارکردگی زیرِ بحث آئی اس دوران چیئرمین قائمہ کمیٹی خرم نواز اور آئی جی اسلام آباد میں تلخ کلامی ہوگئی۔

اس حوالے سے روزنامہ جنگ کی رپورٹ کے مطابق اجلاس میں چیئرمین کمیٹی خرم نواز نے کہا اگر آپ کی وردی اور اس پر پاکستان کا جھنڈا نہ ہوتا تو آپ کو اٹھا کر باہر پھینک دیتا۔

آئی جی اسلام آباد ناصر رضوی نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی داخلہ کے اجلاس میں بریفنگ دیتے بتایا کہ اکتوبر 2024 کے پہلے ہفتے میں اسلام آباد میں مختلف واقعات میں 31 پولیس اہلکار زخمی اور ایک شہید ہوا۔

گزشتہ 11 ماہ میں 348 وی وی آئی پی موومنٹس کو سیکیورٹی دی گئی۔ یکم جنوری 2024 سے 7 نومبر تک 2773 اسٹریٹ کرائم رجسٹرڈ ہوئے، 2024 میں ڈکیتی اور گاڑی چھیننے سے متعلق ون فائیو پر 3897 کالز آئیں، راہ زنی کے 1593 کیس رپورٹ ہوئے۔

آئی جی اسلام آباد نے کہا کہ اسلام آباد میں 3352 اے آئی کیمروں، 568 فائبر آپٹکس کیمروں کی مدد سے سرویلنس ہو رہی ہے، جس پر پی ٹی آئی رکن اسمبلی زرتاج گل بولیں اس پریزنٹیشن کا ہمیں کوئی فائدہ نہیں۔

عبدالقادر پٹیل نے کہا آپ کتنے ملزمان کو سزائیں دلانے میں کامیاب رہے ، ڈیٹا دیں،
چیئرمین کمیٹی خرم نواز نے کہا پولیس کوئی ڈکیت پکڑتی ہے تو اسے دو چار ماہ سے زیادہ سزا نہیں ہوتی، ڈکیت کے خلاف کوئی شریف آدمی گواہی کے لیے عدالت ہی نہیں جاتا۔

اجلاس کے دوران چیئرمین کمیٹی نے آئی جی اسلام آباد کو بولنے سے روک دیا۔ آئی جی بولے کیا میں سوالوں کے جواب نہ دوں؟ جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا آپ لڑ کیوں رہے ہیں؟ آئی جی صاحب اسلام آباد کے تھانوں میں جانے سے ڈر لگتا ہے۔

آئی جی بولے سر کیا آپ کے اس بیان کو آبزرویشن سمجھا جائے؟ چیئرمین کمیٹی نے کہا بالکل اس کو آبزرویشن سمجھا جائے، کیا شہر میں آپ کے بارے میں رائے ٹھیک ہے؟ آئی جی نے کہا رائے دو جمع دو نہیں، ایک الگ سوچ کا نام ہے۔

صاحبزادہ حامد رضا بولے آئی جی صاحب آپ نے جس طرح چیئرمین صاحب سے بات کی یہ افسوسناک ہے۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا اگر آپ نے وردی نہ پہنی ہوتی اور اس پر پاکستان کا جھنڈا نہ ہوتا تو آپ کو باہر پھینک دیتا، اس لہجے میں تو وزراء اور سیکریٹری بھی بات نہیں کرتے۔

آئی جی اسلام آباد نے کہا میرے جواب کا بالکل ایسا مطلب نہیں تھا، یقین دلاتا ہوں آپ ہمارے لیے انتہائی قابل عزت اور معتبر ہیں.
ا
عبدالقادر پٹیل نے قائمہ کمیٹی داخلہ کے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا اسلام آباد کی امن وامان کی صورت حال پر بریفنگ دی گئی جو تسلی بجش نہی‍ں تھی، ارکان کی جانب سے سوالات اٹھانے پر آئی جی کی طرف سے تلخی ہوئی.

انھوں نے کہا کہ تسلی بخش جوابات دینا سرکاری حکام کی زمہ داری ہے، آئی جی کے پاس کنوکشن ریٹ سے متعلق سوالات کا کوئی جواب نہیں تھا، افسران اپنی کارکردگی بتائیں گے تو اس پر سوالات بھی ہونگے.

اسلام آباد پولیس کی طرف سے صرف مقدمات کے اندراج اور پکڑ دھکڑ بچوں کا کھیل ہے، کنوکشن ریٹ عدالتوں کو پتہ ہو گا، آئی جی کے جواب پر تعجب ہوا. گرفتاریوں کے ریکارڈ بتانے سے مسئلہ حل نہیں ہو گا.

ان کا کہنا تھا کہ ارکان کی جانب سے ڈی جی پاسپورٹ سے بھی سوالات کئے گئے،پاسپورٹ کے اجراء میں تاخیر پر سوال کیا گیا کہ یہ کوئی ڈی جی کے خلاف سازش تو نہیں، بڑی تعداد میں پاسپورٹ کے اجراء میں تاخیر بڑھ گئی ہے.

پاسپورٹ کے معاملے پر 15 دسمبر تک التواء ختم کر ے کی یقین دھانی کرائی گئی ہے،پاسپورٹ مشینوں پر تین ارب کے اخراجات پر کی تفصیلات دینا پڑیں گی

عبدالقادر پٹیل نے کہا کہ آئی جی اور ڈی جی پاسپورٹ ہو ہمارے سوالات کی توقع نہیں تھی، وہ تسلی بخش جوابات نہیں دے سکے، سرکاری حکام کو کمیٹیوں کے سامنے تیاری سے آنا چاہیے.

Comments are closed.