پاکستان بار کےبھی پریکٹس اینڈ پروسیجر ترمیمی آرڈیننس پر شدید تحفظات

50 / 100

فوٹو : فائل

اسلام آباد : سپریم کورٹ بار کے بعد پاکستان بار کےبھی پریکٹس اینڈ پروسیجر ترمیمی آرڈیننس پر شدید تحفظات سامنے آ گئے، وائس چیئرمین پاکستان بار نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ترمیمی آرڈیننس کے اجرا پر شدید تحفظات کا اظہار کر دیا. 

پاکستان بار کونسل کی طرف سے جاری اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ وکلا کا دیرینہ مطالبہ تھا کہ بینچوں کی تشکیل اور مقدمات کے تعین کے لیے سینئر ججز پر مشتمل کمیٹی بنائے جائے. 

آرڈیننس کے ذریعے پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون میں ترمیم کرنا وکلا کی جدوجہد کی نفی کرنے کے مترادف ہے، پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کو سپریم کورٹ نے خود آئینی اور قانونی طور پر درست قرار دیا تھا. 

آرڈیننس عارضی قانون سازی ہے جو اس وقت جاری کیا جاتا ہے جب کوئی ہنگامی ضرورت ہو، پاکستان بار کونسل نے کہا کہ آرڈیننس کے ذریعے چیف جسٹس کو بینچ کی تشکیل کا یکطرفہ اور صوابدیدی اختیار دیا گیا. 

آرڈیننس ایک غیر منصفانہ قانون ہے، پریکٹس اینڈ پروسیجر ترمیمی آرڈیننس ایک بری قانون سازی ہے، وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل نے رات کے اندھیرے میں مجوزہ آئینی ترمیم کی منظوری کے طریقہ کار پر بھی تحفظات کا اظہار کر دیا. 

فاروق ایچ نائیک نے کہا آرڈیننس پر پارلیمان کے اندر کوئی بحث نہیں کروائی گئی، صدارتی آرڈیننس آئین پاکستان کی ان شقوں کی بھی خلاف ورزی ہے جس میں قانون سازی کا اختیار عوام کے منتخب نمائندوں کو دیا گیا ہے. 

اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ حکومت کو صدارتی آرڈیننس کے اجراء سے پہلے پاکستان بار کونسل سے رابطہ کرنا چاہیے تھا، پاکستان بار نے ہمیشہ ائین کی بالادستی قانون کی حکمرانی اور عدلیہ کی آزادی کی جدوجہد کی حمایت کی ہے. 

 پاکستان بار کونسل کی جانب سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ حکومت صدارتی آرڈیننس پر رائے کے لیے پاکستان بار کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی کے سامنے پیش کرے. 

Comments are closed.