بشریٰ بی بی بمقابلہ علیمہ خان
محبوب الرحمان تنولی
مائنس عمران خان فارمولا تمام تر جبر کے باوجود اپنی موت آپ مر گیا
پارٹی زبردستی توڑ دی گئی، جو جو بڑے بڑے الیکٹیبلز ہانک کر پی ٹی آئی میں داخل کئے گئے تھے وہ اسی طرح لاٹھی سے ہانک کر باہر کر دئیے گئے.
عمران خان کی طلسماتی مقبولیت کے آگے بندھ باندھنے کیلئے 9 مئی کا فالس آپریشن تاحال جاری رہنے کے باوجود نتائج کے حصول میں ناکام ثابت ہوا.
پھر پارٹی توڑنے کا مشکل ہدف چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ نے تمام تر وسائل اور مدد سے حاصل کرنے کے بے شمار حربے استعمال کیے لیکن عمران خان کا جادو سر چڑھ کر بولتا رہا.
نیشنل پریس کلب کی شہرہ آفاق پریس کانفرنسز کے کئی سیزن چلے، شیرین مزاری، اسد عمر، پرویز خٹک، محمود خان، فواد چوہدری ایسے بڑے نام آبدیدہ چہروں کے ساتھ پارٹی سے رخصت ہو گئے.
پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان کیخلاف تاریخ کے سب سے زیادہ 150 پلس مقدمات قائم کئے گئے جن میں عدت اور ٹیریان ایسے بہودہ کیسز بھی شامل تھے مگر خان صاحب کی کرکٹر اسیسینیشن بھی ان کی شہرت میں کمی کی بجائے بڑھاوا دیتی رہی.
اسلام آباد ہائیکورٹ کے احاطے سے شیشے توڑ کر رینجرز نے غیر قانونی گرفتاری کی جسے سپریم کورٹ نے بھی غیر قانونی قرار دیا لیکن غیر قانونی کام کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرتے عدالت کے بھی پر جلتے تھے.. سو وہ حکم وہیں تک محدود رہا.
ملک بھر میں 10 ہزار سے زائد گرفتاریاں، خواتین سیاسی قیدیوں کی رہائی کے بعد دوسرے مقدمات میں گرفتار کئے جانے کے سلسلے تاحال جاری ہیں لیکن ہدف پھر بھی حاصل نہیں ہورہا.
آٹھ فروری 2024 کے انتخابات میں آرگنائزرز بےغم اور مطمئن ہو کر بیٹھ گئے کہ اب پی ٹی آئی میں اٹھنے کی سکت نہیں رہی اور کٹھ پتلی رہنما اور سیاسی جماعتیں آسانی سے انتخابی میدان مار لیں گی.
رات جب نتائج آنا شروع ہوئے تو آرگنائزرز کے اوسان خطا ہو گئے کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟ پھر زندہ لوگوں کی آنکھوں پہ پٹی باندھ کر عوام کے ووٹوں کی توہین کی گئی.. فارم 45 کے فاتحین کو فارم 47 سے جتوانے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا.
وہ جو 50 ہزار کی لیڈ سے ہار رہے تھے انھیں بھی فارم 47 کے زریعے جیت تھما دی گئی اور جو اپنے حلقے بھی ہار رہے تھے انھیں جتوا کرمسند پر بٹھا دیا گیا، عمران خان ایک بار پھر عدالت پہنچے مگر اس بار سپریم کورٹ کی الماریوں میں ان کی درخواست دفن کر دی گئی.
اس سارے عمل میں ایک قدر مشترک نظر آئی وہ تخلیق کردہ سرکاری کہانیاں تھیں اور ان پر تبصرے کرتے روایتی اینکرز اور چند ایسے افراد جن پر سینئر صحافی ہونے کا الزام ہے. الزام لگانے والے سبق پڑھاتے ہیں اور طوطوں کی طرح رٹہ لگانے والے اسے ثابت کرنے کی کوششیں کرتے رہے.
توشہ خانہ سیزن ون کی ناکامی کے بعد توشہ خانہ سیزن ٹو، غداری کیس، ٹیریان کیس، عدت کیس سب ایک ایک کر کے اپنی موت مرتے چلے گئے. 190 ملین پاونڈزکیس پائپ لائن میں ہے.
اب تازہ ترین جو کہانی تخلیق کی جارہی ہے اس کا عنوان ہے” بشریٰ بی بی بمقابلہ علیمہ خان” اور گزشتہ چند دن سے ن لیگی وزرا اور پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کو ٹاسک ملا ہے کہ روف حسن کے موبائل سے ماخوذ اس سیریز کو کامیاب بنانا ہے.
اینکرز اور صحافی نما دیہاڑی دار اس کام میں لگ گئے ہیں اور زور دار دلائل دے کر ثابت کر رہے ہیں کہ تحریک انصاف دو عورتوں کے رحم وکرم پر ہے.. بتایا جا رہا ہے کہ دونوں خواتین پارٹی پر قبضہ کرنے کی جنگ لڑ رہی ہیں.. گویا پارٹی نہ ہوئی کوئی پلاٹ ہے.
ان عقل کے اندھوں کو ماضی قریب کی یاداشت بھی نہیں رہی کہ اقتدار میں رہنے والی تحریک انصاف کے قریباً 50 فیصد لوگ پارٹی سے الگ کر کے بھی پارٹی نہیں توڑی جا سکی تو دو خواتین کی سٹوری لانچ کرکے ایسا کرنا کیسے ممکن ہے؟
پاکستان تحریک انصاف خود عمران خان ہیں جب تک وہ زندہ ہیں اس پارٹی کو کسی اور کا نام لے کر تقسیمِ نہیں کیا جاسکتا.. اکبر ایس بابر کے زریعے کتنی وارداتیں ڈال کر بھی یہ لوگ یہ بات سمجھ نہیں پا رہے.
نوکری قبول کرکے ایک زمانے بعد کبھی خواجہ آصف اور کبھی عرفان صدیقی کی یاداشت لوٹ رہی ہے کہ جنرل باجوہ نے یہ بھی کہا تھا اور وہ دھمکی بھی دی تھی.. یہ بھول جاتے ہیں کہ انہی کے تعاون سے عمران خان کو ہٹایا گیا تھا.
یہ غیر قانونی و غیر آئینی سہارے مسند نشیں بھی کرتے ہیں اور کبھی کبھی سہارا دے کر نیچے سے تختہ کھینچ بھی لیتے ہیں یہی کچھ عمران خان کے ساتھ ہوا، باو جی تو اس معاملے تجربہ کار سیاسی ڈیلر ہیں لیکن اس بار عارضی حمایت کا سودا کرکے قید تنہائی کاٹ رہے ہیں.
بدقسمتی سے اس غیر آئینی سلسلہ کو روکنے کی مشترکہ کوشش کرنے بجائے سیاستدان کندھا پیش کرنے کیلئے تیار بیٹھے ہوتے ہیں.
بشریٰ بی بی بمقابلہ علیمہ خان
گزشتہ کالم
Comments are closed.