الیکشن ایکٹ ترمیمی بل 2024 قومی اسمبلی کے بعد سینیٹ سے بھی منظور

56 / 100

فائل:فوٹو
اسلام آباد: الیکشن ایکٹ ترمیمی بل 2024 قومی اسمبلی کے بعد سینیٹ سے بھی منظور کرلیا گیا جس کے تحت آزاد امیدوار مخصوص مدت کے بعد کسی اور سیاسی جماعت میں شامل نہیں ہوسکتا۔

جبکہ سنی اتحاد کونسل اور پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ اراکین نے الیکشن ترمیمی بل کی مخالفت کرتے ہوئے ایوان میں احتجاج کرتے ہوئے شدید نعرے بازی کی۔ عدلیہ پر حملہ نامنظور کے نعرے لگائے۔ شور شرابے کے باعث ایوان مچھلی منڈی بن گیا۔

قومی اسمبلی میں اپوزیشن کے احتجاج کے دوران الیکشن ایکٹ ترمیمی بل 2024 کثرت رائے سے منظور کر لیا گیا جس کی اپوزیشن کی جانب سے بھرپور مخالفت کی گئی۔

اسپیکر ایاز صادق کی زیر صدارت قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا جس میں مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی بلال کیانی نے الیکشن ایکٹ میں دوسری ترمیم کا بل پیش کیا۔

سنی اتحاد کونسل کے ارکان نے مجوزہ بل میں ترامیم پیش کیں لیکن حکومتی ارکان نے کثرت رائے سے تمام ترامیم مسترد کردیں۔

علی محمد خان نے کہا کہ الیکشن ایکٹ کے ذریعے عدلیہ پر حملہ کیا گیا ہے، اس قانون کے ذریعے پارلیمنٹ کو سپریم کورٹ پر حملے کیلئے استعمال کیاگیا، تحریک انصاف کو سپریم کورٹ کے فیصلے سے حق ملا، سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد کس طرح ہمیں اس حق سے محروم کرسکتے ہیں۔

سنی اتحاد کونسل اور پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ اراکین نے الیکشن ترمیمی بل کی مخالفت کرتے ہوئے ایوان میں احتجاج کرتے ہوئے شدید نعرے بازی کی۔انہوں نے عدلیہ پر حملہ نامنظور کے نعرے لگائے۔ شور شرابے کے باعث ایوان مچھلی منڈی کامنظر پیش کرنے لگا۔

بعدازاں قومی اسمبلی نے کثرت رائے سے الیکشن ایکٹ ترمیمی بل 2024 منظور کرلیا۔ اس قانون کا اطلاق 2017 سے کیا جائے گا۔نئے قانون کے تحت آزاد امیدوار آئین اور قانون میں درج مخصوص مدت کے بعد کسی سیاسی جماعت میں شامل ہونے کا حق استعمال نہیں کرسکتے۔

آئین اور الیکشن ایکٹ 2017 میں آزاد امیدواروں کو دوبارہ کسی سیاسی جماعت میں شامل ہونے کی سہولت فراہم نہیں کی گئی۔ مجوزہ مدت کے اندر مخصوص نشستوں کی فہرست جمع نہ کرانے والی جماعت مخصوص نشستوں کی اہل نہیں ہوگی۔

بل میں کہا گیا ہے کہ جس امیدوار نے ریٹرننگ افسر کے سامنے جماعت سے وابستگی کا بیان حلفی جمع نہ کرایا ہو اسے آزاد تصور کیاجائے گا۔ الیکشن کے بعد پارٹی وابستگی ظاہر کرنے والا امیدوار کسی سیاسی جماعت کا امیدوار نہیں سمجھا جائیگا اور الیکشن کا دوسرا ترمیمی بل 2017سے نافذ العمل ہوگا۔

اس موقع پر پاکستان تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی علی محمد خان نے کہا کہ الیکشن ایکٹ ترمیمی بل غیر آئینی ہے، کس طرح قانون سازی کر کے سپریم کورٹ کی جانب سے دیئے گئے ہمارے حق سے محروم کیا جا سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ مخصوص نشستوں کا حق ہمیں سپریم کورٹ سے ملا ہے، الیکشن ایکٹ ترمیمی بل سیاسی مقاصد کیلئے پیش کیا گیا۔

علی محمد خان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے تحریک انصاف کو ایک سیاسی جماعت تسلیم کیا ہمارا حق تسلیم کیا، میں نے معاملہ قائمہ کمیٹی کے سامنے رکھا، انتخابی بیلٹ پیپرز پر بیٹ کا نشان تک ہٹا دیا گیا مگر پھر بھی عوام نے حق میں ووٹ دیا۔

انہوں نے کہا کہ کیا صرف 39 ارکان حلال اور باقی حرام ہیں، ہم اس بل کو مسترد کرتے ہیں، ہم اس پر شدید احتجاج کرتے ہیں، ہم اس قانون سازی کے خلاف سپریم کورٹ میں جائیں گے یہ وہاں سے بھی مسترد ہوگا کیونکہ یہ بل قانون سازی نہیں بلکہ ایک سیاسی جماعت کی فسطائیت شامل ہے۔

علی محمد خان کا مزید کہنا تھا کہ اس قانون کے ذریعے پارلیمنٹ کو سپریم کورٹ پر حملے کیلئے استعمال کیا گیا، قانون سازی بے شک کریں مگر قانون سازی پاکستان کے مفاد میں ہونی چاہیے۔

اس موقع پر وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ اسی ایوان میں 81 ارکان نے حلف دیا کہ سنی اتحاد کونسل کا حصہ ہیں، آج کہتے ہیں کہ نہیں ہم فلاں جماعت کا حصہ ہیں؟ کسی ایک بات پر تو کھڑے ہوں، ہم صرف اور صرف انتخابات کے قانون میں وضاحت لا رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ قانون سازی صرف اور صرف اس ایوان کا اختیار ہے کسی اور کو نہیں ہے، اللہ کے 99 ناموں کے نیچے کہتا ہوں کہ یہ قانون سازی آئین اور قانون کے مطابق ہے۔

 بیرسٹر گوہر نے کہا کہ یہ قانون سازی آئین اور قانون کیخلاف ہے، سازش کے تحت پی ٹی آئی ارکان سے نشان لیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے 4 درخواستیں الیکشن کمیشن میں جمع کروائیں تھیں جس وقت کاغذات نامزدگی فائل کر لئے تو سازش کے تحت نشان لے لیا گیا، ہمیں ہرانے کی کوشش کی گئی لیکن دو تہائی اکثریت سے جیتے، انہوں نے فارم 45 کو تبدیل کر کے اپنی حکومت بنائی ہے، یہ کل بھی ہارے ہوئے تھے، آج بھی ہارے ہوئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس ایوان میں یہ نویں قانون سازی ہو رہی ہے، کوشش کر رہے ہیں مخصوص نشستیں انہیں مل جائیں۔

بیرسٹر گوہر کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف ایک سیاسی جماعت ہے، یہ پارلیمنٹ سپریم ضرور ہے لیکن تشریح کا اختیار سپریم کورٹ کو ہے، اس قانون سازی کو سپریم کورٹ میں چیلنج کریں گے۔

چیئرمین پی ٹی آئی نے مزید کہا کہ موجودہ حکومت کا انجام بھی حسینہ واجد جیسا ہوگا، شہبازشریف حسینہ واجد سے فون کر کے مشورہ کرلیں واپس جانا کیسے ہے، عوام کے حق پر ڈاکہ ڈالنے والوں کا یہی حال ہوتا ہے۔

قومی اسمبلی میں بھارتی آئین میں ترمیم سے متعلق قرارداد پیش کی گئی جسے اتفاق رائے سے منظور کر لیا گیا۔

قرارداد کے مطابق 5 اگست 2019 کو بھارتی حکومت نے غیر قانونی اقدامات اٹھائے، اس دن کو پاکستان یوم استحصال کشمیر کے طور پر مناتا ہے، مسئلہ جموں کشمیر اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر تاحال موجود ہے، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعدد قراردادیں منظور کی جا چکی ہیں۔

قرارداد میں کہا گیا کہ ایوان کشمیر کی غیر متزلزل سیاسی سفارتی اور اخلاقی حمایت کرتا ہے، ایوان لاکھوں بھارتی افواج کی موجودگی پر شدید تشویش کا اظہار کرتا ہے، بھارتی غیر ذمہ دارانہ بیانات کو مسترد کرتا ہے۔

قومی اسمبلی کے بعد شام کو یہی بل ایوان بالا میں پیش کیا گیا، طلال چوہدری کی طرف سے پیش کردہ بل اپوزیشن کے احتجاج کے باوجود کثرت رائے سے منظور کر لیا گیا. 

یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے 12 جولائی کو پی ٹی آئی کو خواتین اور اقلیتوں کیلئے مخصوص نشستوں کیلئے اہل قرار دے دیا تھا۔

Comments are closed.