سپریم کورٹ کی پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کے تہلکہ خیز میٹنگ منٹس

55 / 100

فوٹو:فائل

اسلام آباد: سپریم کورٹ کی پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کے تہلکہ خیز میٹنگ منٹس میں ججز کی آراء سامنے آئی ہیں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نظر ثانی درخواست مقرر کرنے پر زور دیتے رہے.

مخصوص نشستوں کے فیصلہ پر نظرثانی درخواست کی فوری سماعت کی تجویز مسترد،سپریم کورٹ کی پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی نے مخصوص نشستوں کے فیصلے کیخلاف دائر نظر ثانی درخواست کو ستمبر کی تعطیلات کے بعد مقرر کرنے کا فیصلہ کرلیا۔

تین رکنی کمیٹی نے 2:1 کی اکثریت سے مخصوص نشستوں سے متعلق نظرثانی درخواست فوری سماعت کے لیے مقرر کرنے کی تجویز مسترد کر دی۔

سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجز کمیٹی کا 17واں اجلاس چیف جسٹس کی سربراہی میں ہوا، سپریم کورٹ نے اجلاس کے میٹنگ منٹس جاری کر دیئے ہیں جس کے مطابق مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلے پر نظرثانی درخواستیں سماعت کے لیے مقرر کرنے کا معاملہ اٹھایا گیا۔

اجلاس میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر نے کہا کہ نظرثانی صرف وہی 13 ججز سن سکتے ہیں جنہوں نے مرکزی کیس سنا ہے۔ دونوں ججز نے کہا کہ کیس کا تفصیلی فیصلہ بھی جاری نہیں ہوا اور بہت سے ججز گرمیوں کی چھٹیوں پر ہیں جبکہ باقی نے تعطیلات گزارنے کیلیے بیرون ملک بھی جانا ہے۔

ججز کمیٹی نے 2:1 کی اکثریت سے مخصوص نشستوں سے متعلق نظرثانی درخواستیں تعطیلات کے بعد مقرر کرنے کی منظوری دی جبکہ چیف جسٹس نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا اور رائے دی کہ گرمیوں کی چھٹیاں منسوخ کرکے نظرثانی سننی چاہیے۔

سپریم کورٹ کی جانب سے جاری نکات کے مطابق جسٹس منیب اختر نے رائے دی رولز میں عدالتی چھٹیوں کا اختیار موجود ہے اور نئے عدالتی سال کا آغاز اب ستمبر کے دوسرے ہفتے سے ہوگا۔ چیف جسٹس کی چھٹیاں منسوخ کر کے نظر ثانی درخواست سننے کی رائے پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ایک بار عدالتی چھٹیوں کا اعلان ہو جائے تو قانون میں انہیں منسوخ کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے دونوں ججز کی رائے سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ نظرثانی کا حق آئین نے دیا ہے، مخصوص نشستوں کے فیصلے کے بعد نظر ثانی درخواست بے معنی ہو جائے گی، ججز کے آرام اور آسانی کو نہیں آئین کو ترجیح دینی چاہیے، فوری طور پر نظرثانی کو سماعت کے لیے مقرر نہ کیا گیا تو یہ نا انصافی ہوگی۔

نظرثانی سننے کے بجائے چھٹیاں گزارنے کی جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر کی رائے سے اختلاف کرتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہمارا کام آئین و قانون پر عمل کرنا ہے، ہم ججز نے آئین و قانون کے تحت حلف اٹھا رکھا ہے رولز کے تحت نہیں، آئین و قانون کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں ذاتی ترجیحات کے بجائے آئین و قانون کے مطابق عمل پیرا ہونا چاہیے، ایک ہفتے میں جسٹس عائشہ ملک بیرون ملک سے واپس پاکستان آ سکتی ہیں، آرٹیکل 63اے نظرثانی دس دنوں میں سماعت کیلئے مقرر کی جائے اور اس حوالے سے دونوں ججز دستیاب ہیں۔

Comments are closed.