پی ٹی آئی کارکن صنم جاوید عدالتی حکم پر رہائی کے بعد پھر گرفتار، نامعلوم مقام پر منتقل
فوٹو : سکرین گریب
اسلام آباد: پی ٹی آئی کارکن صنم جاوید عدالتی حکم پر رہائی کے بعد پھر گرفتار، نامعلوم مقام پر منتقل، صنم جاوید کی گرفتاری کی ویڈیو بھی سامنے آگئی.
پولیس پہنچی اور صنم جاوید کو گاڑی میں بیٹھا کر لے گئی، پولیس اہکلار کے ہمراہ وویمن پولیس بھی تھی، وویمن پولیس اہلکار نے صنم جاوید کو گاڑی کی پچھلی سیٹ میں بیٹھایا اور روانہ ہوگئی.
اس سے قبل اسلام آباد کی عدالت نے صنم جاوید کے جسمانی ریمانڈ کی درخواست مسترد کرکے ان کے وکلاء کی استدعا منظور کرتے ہوئے انہیں ایف آئی اے کے مقدمے سے ڈسچارج کرنے اور رہائی کا حکم دیا تھا۔
ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹس اسلام آباد میں ایف آئی اے نے صنم جاوید کو ڈیوٹی مجسٹریٹ ملک عمران کی عدالت میں پیش کیا، ایف آئی اے پراسیکیوٹر کی جانب سے صنم جاوید کے جسمانی ریمانڈ کی درخواست کی گئی۔
صنم جاوید کے وکیل میاں علی اشفاق ایڈووکیٹ نے استدعا کی کہ لاہور ہائیکورٹ میری مؤکلہ کو بری کرچکی ہے، لاہور ہائیکورٹ نے لکھا ہے کہ صنم کیخلاف کوئی قانونی شہادت اور ثبوت نہیں، بری ہونے اور گرفتار ہونے کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ چل رہا ہے.
لاہور کے مقدمات سے نکالا گیا تو سرگودھا میں 9 مئی کے کیسز میں ڈال دیا گیا، سرگودھا سے بری ہوئی تو گوجرانوالہ میں ڈال دیا گیا۔
علی اشفاق ایڈوکیٹ نے دلائل دیے کہ میری مؤکلہ کو اس مقدمہ سے ڈسچارج کیا جائے، ایڈوکیٹ جنرل پنجاب نے لاہور ہائی کورٹ میں کہا کہ اب صنم جاوید کسی مقدمے میں مطلوب نہیں ہیں، اب پنجاب پولیس کے پاس کچھ نہیں تو یہاں لے آئے۔
بعد میں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنز کورٹ سے جاری تحریری فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ
پی ٹی آئی کارکن صنم جاوید ایف آئی اے سے ڈسچارج کیا جائے، ڈیوٹی جج ملک محمد عمران نے 4 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کردیا.
مقدمے میں الزام ہے کہ صنم جاوید نے ٹویٹ کے ذریعے ریاستی اداروں بشمول فوج کیخلاف جھوٹی معلومات پھیلائیں، الزام ہے کہ صنم جاوید نے ٹویٹ کے ذریعے ریاست مخالف بیانیے کو فروغ دیا.
تحریری فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ الزام ہے کہ صنم جاوید نے ٹویٹ کے ذریعے عام عوام کو تشدد اور دہشت گردانہ سرگرمیوں کیلئے اکسایا، ایف آئی آر میں صنم جاوید کی جانب سے کیے گئے ٹویٹس کے اوقات اور تاریخ درج نہیں.
صنم جاوید کے ٹویٹ نے کتنے افراد کو ریاست مخالف سرگرمیوں پر اکسایا؟ ریکارڈ میں کچھ موجود نہیں، یہ کہا ہی نہیں جا سکتا کہ صنم جاوید نے 10 مئی 2023 کے بعد اپنا ٹویٹر اکاؤنٹ استعمال کیا.
لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے مطابق صنم جاوید کا موبائل فون پولیس کے قبضے میں تھا، صنم جاوید 10 مئی 2023 سے قبل ہی ٹویٹ کر سکتی تھیں کیونکہ اس کے بعد وہ پولیس حراست میں تھیں.
ایف آئی آر کے مطابق شکایت کنندہ ایف آئی اے سائبر کرائم کے سب انسپکٹر شہروز ریاض ہیں، ریکارڈ میں شہروز ریاض کو شکایت درج کرانے کیلئے ریاستی اداروں یا پاک فوج سے اجازت ملنے کا ذکر نہیں.
شکایت کنندہ کا تعلق پاک فوج سے نہیں تھا، لحاظہ ان کو مقدمہ درج کرانے کا اختیار نہیں تھا،پاکستان کے عوام کے دلوں میں ریاستی اداروں اور پاک فوج کی محبت و عزت بڑی وسعت رکھتی ہے.
ریاستی اداروں، پاک فوج کی عزت و تکریم اتنی کمزور نہیں کہ ایف آئی آر میں لکھی گئی فرضی کہانیوں سے متاثر ہوسکے، ایف آئی اے کی جانب سے صنم جاوید کے 6 روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد کی جاتی ہے.
تحریری فیصلہ صنم جاوید کو مقدمے سے ڈسچارج کیا جاتا ہے، اگر کسی دوسرے مقدمے میں مطلوب نہیں تو صنم جاوید کو فوری رہا کردیا جائے.
واضح رہے کہ گزشتہ روز صنم جاوید کو گجرانوالہ سے گرفتار کیا گیا تھا۔ انہیں سینٹرل جیل گوجرانوالہ سے رہا ہوتے ہی اسلام آباد پولیس گرفتار کرکے ساتھ لے گئی تھی۔
Comments are closed.