سائفر سابق پرنسپل سیکرٹری اعظم خان نے وصول کیا تو حفاظت کی ذمہ داری بھی ان کی تھی

51 / 100

فوٹو: فائل

اسلام آباد: اسلام آباد ہائیکورٹ میں زیر سماعت سائفر کیس میں سزا کیخلاف اپیلوں پر بانی پی ٹی آئی کے وکیل سلمان صفدر نے اپنے دلائل مکمل کرلیے ہیں۔ عدالت نے شاہ محمود قریشی کے وکیل کو تحریری طور پر دلائل جمع کرانے کی ہدایت کردی ہے۔ ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے تیاری کیلئے وقت کی استدعا کی، عدالت نے حامد علی شاہ کو کل سے دلائل دینے کی ہدایت کردی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل ڈویژن بینچ نے بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کی سائفر کیس میں سزا کیخلاف اپیلوں پر سماعت کی۔ دوران سماعت بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کی جانب سے وکیل سلمان صفدر، عثمان ریاض گل اور دیگر عدالت میں پیش ہوئے۔

ایف آئی اے پراسیکوشن ٹیم میں حامد علی شاہ اور ذولفقار نقوی عدالت میں پیش ہوئے۔ عدالتی حکم پر ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد اور اسسٹنٹ سپرٹینڈنٹ اڈیالہ جیل بھی عدالت میں پیش ہوئے۔ بانی پی ٹی آئی کے وکیل سلمان صفدر نے اپنے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ جہاں پر دلائل چھوڑے تھے آج وہی سے دلائل کا آغاز کرونگا۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیئے دو دفعات کے تحت سزا ہوئی، ایک غفلت کی بات کرتی ہے اور ایک نہیں۔ میں ایک چیز پر آپ سے متفق ہوں کہ ملزمان پر ایک چارج لگنا تھا۔ سلمان صفدر نے موقف اپنایا کہ شاہ محمود قریشی کی حد تک تو جو چارج لگائے گئے وہ اس سے الگ ہیں، میں عمران خان کے اوپر چارج کے حوالے سے بات کرونگا۔

سائفر سابق پرنسپل سیکرٹری اعظم خان نے وصول کیا تو حفاظت کی ذمہ داری بھی ان کی تھی۔ کہا بھی گیا کہ پرنسپل سیکرٹری نے سائفر کی کاپی واپس نہیں کی۔ عدالت نے استفسار کیا کہ پرنسپل سیکرٹری اعظم خان نے تو کہا ہے کہ میں نے عمران خان کو سائفر کاپی دی تھی۔ کیا صدر یا وزیراعظم کو جو چیزیں دی جاتی ہیں انکی ذمہ داری ان کے سیکرٹری پر ہوگی؟ صدر یا وزیراعظم کے سیکرٹری سے اگر کوئی غفلت ہو جائے تو اسکی کیا سزا ہوگی؟

چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیئے کہ اعظم خان کا بیان موجود ہے کہ اس نے کاپی بانی پی ٹی آئی کو دی تھی۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا ہمیں یہ چیز سمجھائیں کہ آپ کو کاپی ملی ہی نہیں یا آپ نے وصول کرنے کے بعد واپس کیا؟

بیرسٹر سلمان صفدر نے موقف اپنایا بانی پی ٹی آئی کا مؤقف ہے کہ کاپی وصول کی تھی مگر وہ دفتر سے غائب ہوگئی۔ اعظم خان نے کہا کہ سائفر گم ہوگیا تو سیکرٹری ملٹری، ڈی جی سی اور وزیراعظم آفس کی سکیورٹی کو کاپی ڈھونڈنے کی ہدایت دی۔ سائفر کی کاپی گمشدہ ہونے پر وزارت خارجہ کو آگاہ کرنا ہوتا ہے جو ہم کر چکے۔ عدالت نے استفسار کیا کہ وزیر اعظم سمیت اہم دفاتر میں اہم دستاویزات کی موومنٹ ریکارڈ ہوتی ہے یا نہیں؟

ایف آئی اے پراسیکیوٹر حامد علی شاہ نے جواب دیا کہ سائفر جب آتا ہے تو اسکی ہر موومنٹ کو ریکارڈ کیلئے محفوظ کیا جاتا ہے۔ ایف آئی اے پراسیکیوٹر حامد علی شاہ نے موقف اپنایا آٹھ مارچ کو سائفر کی کاپی پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کو موصول ہوئی۔ نو مارچ کو اعظم خان کی جانب سے کاپی اس وقت کے وزیراعظم کو دی گئی۔

بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا سائفر گم یا چوری ہو جائے تو قانون کے مطابق وزارت خارجہ کی ذمہ داری ہے کہ اس کی انکوائری کرے۔ اعظم خان نے کہاں بتایا ہے کہ بانی پی ٹی آئی کے پاس کاپی موجود ہے؟ اگر بانی پی ٹی آئی نے دستخط کیے ہوتے تو ان کی ذمہ داری بھی ہوتی۔ سیکریٹریٹ رولز کے مطابق سابق وزیر اعظم کے پاس کسٹڈی نہیں ہوسکتی۔ سائفر سے کسی کو نقصان نہیں پہنچا۔ سائفر کی حفاظت بانی پی ٹی آئی کی ڈیوٹی نہیں تھی۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیئے جو جرم کرنا چاہتا ہے وہ کرتا ہے، اس کو آپ ڈیوٹی سے تشبیہ نہ دیں۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیئے آپ یہ غفلت کا لفظ استعمال نہ کریں، ایک دستاویز جس کی حفاظت ریاست کیلئے اہم ہے وہ غائب ہوا ہے۔

سلمان صفدر نے موقف اختیار کیا کہ سرکار کے اپنے چار گواہ ہیں جو کہتے ہیں کہ سائفر کی کاپی اعظم خان کو دی گئی۔ جب سائفر کاپی وزیراعظم کے سپرد ہوئی ہی نہیں، تو جس کے سپرد ہوئی اس کو آپ نے گواہ بنا دیا، تو خود بھگتیں۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا اعظم خان پر چارج پر کیوں نہیں لگایا گیا؟ بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا میں یہی بات کرنا چاہتا ہوں کہ ملزم پر چارج لگتا ہے۔

انہوں نے اس کو گواہ بنا لیا۔ ملزم کو گواہ بنا کر پراسکیوشن نے اپنا کیس خراب کردیا ہے۔ بطور وزیر اعظم بان پی ٹی آئی کا کام تھا کہ وہ کاپی گم ہونے سے متعلق آگاہ کریں جو انہوں نے کردیا۔ چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیئے ایک دستاویز آپ کے پاس آیا، اسے رکھنے کی ڈیوٹی آپ کی نہیں ہے، تو اس کی حفاظت کس کی ذمہ داری ہے؟

بیرسٹر سلمان صفدر نے موقف اپنایا عدالت میں دیئے گئے بیان کے مطابق بھی گواہوں نے یہ نہیں کہا کہ بانی پی ٹی آئی نے جرم کیا۔ گواہوں نے بیان دیا کہ ہم وزیر اعظم کو کاپی گم ہونے کا بتاتے رہے۔ ایک چھوٹی سی غفلت کو بنیاد بنا کر سابق وزیر اعظم کو سزا نہیں دے سکتے۔ یہ ایسا کیس ہے جس میں کوئی بھی ثبوت موجود نہیں ہے۔

بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا وزرات خارجہ نے کبھی انکوائری نہیں کی تو کیس کیسے بن سکتا ہے؟ سیکرٹری داخلہ نسیم کھوکھر نے شکایت تو کی مگر ایف آئی اے نے خود سے چیزیں ڈالیں۔ شکایت کنندہ کی درخواست میں عمران خان کا کہیں بھی نام شامل نہیں۔ ایف آئی اے نے کہا کہ ہم نے پانچ اکتوبر سے اپنی انکوائری شروع کردی تھی، پانچ سے بارہ اکتوبر تک کس کے کہنے پر یہ انکوائری کی اور وہ کہاں ہے؟ سیکرٹری داخلہ کی درخواست نہیں، ایف آئی اے کی خود سے ایف آئی آر درج کرائی۔

بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا گیا، وزارت داخلہ فریق ہے، اس وقت رانا ثناء اللہ وزیر داخلہ تھے۔ سیکرٹری داخلہ نے کہا کہ ایک آڈیو ہم نے سنی جس میں سائفر کا ذکر تھا، پورے ٹرائل میں آڈیو کا ذکر ہی نہیں کیا گیا۔ ایف آئی آر کی ساری لنگویج میں سیکریٹ ایکٹ کے سیکشنز کے مطابق لکھا ہوا ہے۔ جو پارٹی چھوڑ دیتے ہیں وہ بری ہو جاتے ہیں۔ ایک کو کہا جارہا ہے پارٹی چھوڑ دو، پارٹی چھوڑنے پر انکا نام نکال دیا جاتا ہے، شاہ محمود قریشی نے پارٹی نہیں چھوڑی تو وہ ملزم ہیں۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ کیا یہ ریکارڈ پر لکھا ہوا ہے؟ بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا نہیں، کہیں نہیں لکھا ہوا۔ ریکارڈ پر نہیں لیکن شاہ محمود قریشی نے اپنے بیان میں اس حوالے سے کچھ کہا ہے۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیئے جو ریکارڈ پر نہیں وہ نا کہیں۔ اعظم خان ایک نامزد ملزم اور کاپی کی حفاظت کے ذمہ تھے۔ اعظم خان نے اپنے بیان میں کہیں بھی بانی پی ٹی آئی کیخلاف کوئی بات نہیں کی۔ آپ میرے دلائل کو یہاں تک نوٹ کرلیں کہ چار میں سے دو ملزمان کو قصوروار قرار دے دیا۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ آپ کہتے ہیں کہ اسٹار گواہ اعظم خان کے بیان کی کوئی ویلیو نہیں ہے؟ اعظم خان کی کوئی ایسی اسٹیٹمنٹ جو غیر یقینی ہو؟ آپ بار بار کہہ رہے کہ اعظم خان کے بیان کی کوئی اہمیت نہیں ہے، کیوں نہیں ہے؟ عدالت کو بتائیں۔ بیرسٹر سلمان صفدر نے موقف اپنایا ایک سو چونسٹھ کے بیان کے بعد ملزمان کو جرح کا موقع نہیں دیا گیا، اعظم خان خود وعدہ معاف گواہ بن سکتے تھے، ایف آئی اے کے پاس نہ جاتے، اعظم خان معافی مانگ کر وعدہ معاف گواہ بن سکتے تھے، انہوں نے ایسا بھی نہیں کیا۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیئے کہ اعظم خان اچانک غائب ہوتے ہیں، کیس میں نامزد ملزم بنتے ہیں اور پھر ایک سو چونسٹھ کا بیان آجاتا ہے۔ چیف جسٹس عامرفاروق نے ریمارکس دیئے ہمیں معاملات کا نہیں معلوم کہ اعظم خان غائب ہوئے، ہائیکورٹ میں پٹیشن دائر ہوئی اور پھر واپس بھی لے لی گئی۔

سلمان صفدر نے کہا اہم کردار دینے کے بعد دو ملزمان کو چھوڑنے سے ایف آئی اے کا کیس خراب ہوا۔ سپریم کورٹ کے سامنے بھی سائفر کے کانٹینٹ نہیں رکھے گئے۔ سائفر کہاں ہے؟ جب ایک چیز ہی نہیں تو ہوا میں مقدمہ بناکر کانٹیٹ بنائے گئے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ دو دفعہ کیس ریمانڈ بیک کر چکی، ہمیں ٹرائل کورٹ میں جرح کا موقع نہیں دیا، حق دفاع نہیں دیا۔ اگر کیس ریمانڈ بیک ہو جاتا ہے تو اس کے گراؤنڈز واضح ہونے چاہئیں۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیئے ہم نے آپ کو میرٹ پر سن لیا، آپ کیوں ایسا سوچ رہے کہ ریمانڈ بیک ہوگا؟ بانی پی ٹی آئی کے وکیل سلمان صفدر نے دلائل مکمل کرلیے۔ عدالت نے شاہ محمود قریشی کے وکیل تیمور ملک کو تحریری طور پر دلائل جمع کرانے کی ہدایت کردی۔

اسپیشل پراسیکیوٹر حامد علی شاہ نے اپنے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے تیاری کیلئے وقت کی استدعا کی۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے حامد علی شاہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم فیصلہ معطل کرتے ہیں پھر جتنا بھی آپ کو وقت چاہیے لے لیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے ہم آپ کو یہ نہیں کہیں گے کہ آپ کم وقت لیں۔ سلمان صفدر نے پندرہ سماعتیں لے لیں، آپ کم از کم دلائل تو شروع کریں۔ عدالت نے کیس کی سماعت کل تک کیلئے ملتوی کردی۔

Comments are closed.