عورت کو بے توقیر کیا

طیبہ مصطفی

بڑھتے ہوئے مغربی رجحانات اور مواد تک رسائی کی فراہمی کس حد تک درست تصور کی جاسکتی ہے، ایک ایسے معاشرے میں جہاں مملکت خداداد کو حاصل کرنے کا مقصد ہی مسلم معاشرے کا قیام اور شریعت و سنت کا نفاذ رکھا گیا ہو؟ عورت کیا ہے؟ یقینا ایک انسان ہے، جو سانس بھی لیتی بھی، بولتی بھی ہے، چلتی پھرتی بھی ہے، کسی کی ماں، کسی کی بہن اور کسی کی بیٹی ہوتی ہے، عورت کو خدا نے بہت عزت سے نوازا ہے، جو عورت ماں بنتی ہے اور نیک اولاد پروان چڑھاتی ہے ایسی عورت کے قدموں کو خدا نے جنت جیسی انمول نعمت کے تحفے سے نوازا، مگر سوال یہ اٹھتا ہے کیا ہر ماں ماں ہوتی ہے؟ ہر بیٹی بیٹی کہلانے کے قابل ہوتی ہے؟ ہر بیوی بیوی کے درجے پر فائز کی جاسکتی ہے؟ سوال تو عجیب ہے مگر اس سوال کا جواب ایک طرف بہت مشکل اور دوسری بہت آسان بھی ہے۔

یہ مواد کیا ہے، ٹیلی ویژن پرآئے دن اشتہارات میں جو پیغام دیا جاتا ہے چاہے وہ مارکیٹنگ سے متعلق ہو یا سیلز سے کیا عورت کے وجود کی نمائش سے ہی ممکن ہے؟ میں سب اشتہارات کی بات نہیں کررہی، صرف ان اشتہارات کا ذکر کرنا چاہتی ہوں جن میں خواتین یا تو ناچ رہی ہوتی ہیں یا پھر ممنوعہ غیر اخلاقی تقاضوں کو پورا کرنے والے اشتہارات ہیں جن میں خواتین کی جسمانی صحت کے ساتھ ساتھ غیر ضروری حرکات وسکنات اور باقاعدہ ایک گانا ترتیب دیا جاتا ہے، جس کے ذریعے بات مکمل کی جاتی ہے۔

میں مثال دینا چاہوں گی:
موبائلز کے اشتہارات ،ترنگ، آلویز، سٹے فری، لکس۔

یہ وہ سر فہرست اشتہارات ہیں جن میں خواتین عورتیں کم اور کھلونا زیادہ دکھائی دیتی ہیں، جن میں کسی نے چابی بھر دی ہو اور وہ تمام حرکات و سکنات کرنے کے لئے رضامند ہوتی ہیں، یہاں ریاست کہاں چلی جاتی ہے، اخلاقیات اور اقدار کہاں چلی چاتی ہیں، دین کہاں چلا جاتا ہے اسلام کہاں چلا جاتا ہے؟

آج مغربی تہذیب کی کیا یلغار ہوئی، ہماری سوچ چھوٹی ہونے کے ساتھ ساتھ کپڑے بھی چھوٹے ہوگئے، اقدار کا جنازہ نکال دیا ہم نے۔ اذان کا کیا وقت ہوتا ہے ہمیں یہ بھی علم نہیں ہوتا اور ہم پروگرام اور نیوز دیکھنے میں ہی مگن ہوتے ہوتے ہیں اور اگر ہماری سماعتوں میں اذان کی آواز آبھی جائے تو ٹی وی کی آواز تو کیا ہی کم ہوگی ہم دو منٹ کی خاموشی اور سر پر چادر اوڑھنا بھی گوارا نہیں کرتے، کیونکہ اب ہم ہیں ماڈرن لوگ جن کے لئے سب ضروری ہے سوائے دین کو مقدم جاننے کے۔

اب تو یہ حال ہے میڈیا کا کہ چاہے لب پر خدا کا نام ہو یا رسول کا ،دوپٹہ شانوں کی سیر کرتا ہے، ہم نے عقیدت و احترام کے سارے اصولوں کا جنازہ نکال دیا۔

ہم نے مسلمان ہونے کے نام پر اسلام کی شکل بالکل مسخ کر ڈالی، عورت کو خدا نے حسن سے ضرور نوازا ہے لیکن کچھ حدیں ہیں کچھ اقدار ہیں کچھ ہماری عفت ہے، ہم کیا اسی لئے رہ گئے ہیں کہ کوئی پیسہ دے تو ناچ لیں، کوئی پیسہ دے تو کپڑے اتار دیں، ڈراموں میں پیش کئے جانے والے ہر کردار کے لئے رضامندی ظاہر کر دیں، کیونکہ کپڑے اتارنا بہت ہی اچھی بات ہے، بس پیسہ دے دو سب کریں گے۔

پہلے فلمیں ،ڈرامے خاندان کے افراد کے ساتھ بیٹھ کر دیکھ لئے جاتے تھے، اب تو ہر ڈرامے کو محبت کا محور بنادیا گیا ہے، زیادہ تر ایسا ہی ہے، بہت کم ایسے ڈرامے ہیں جو واقعی معاشرتی ناہمواریوں کی منظر کشی بھی کرتے ہیں اور خواتین کی عفت کو بھی ملحوظ خاطر رکھتے ہیں، میں یہ نہیں کہتی کہ آپ سچ نہ دکھائیں، ضرور دکھائیں یقینا عورت ظلم و زیادتی کا بھی شکار بنتی ہے، ریپ بھی کیا جاتا ہے، قتل بھی کردی جاتی ہے، گھر سے بھاگ کر شادی بھی کرتی ہے، شوہر کو قتل بھی کردیتی ہے مگر عورت کو بے توقیر کرنا کہاں کی ماڈرانائیزیشن ہے جو جوانوں کو جنسی ہوس اور بے راہ روی کی طرف مائل کرتی ہے؟ کیا شادی اور بچوں کی پیدائش کا عمل، مرد عورت کے مابین تعلقات کے سوا کوئی موضوع نہیں رہا ہمارے پاس؟

ہمیں کچھ اصول بنانے ہیں، کیونکہ بغیر اصول کے زندگی نہیں گزاری جاتی، خواتین براڈ کاسٹرز اور آرٹسٹوں پر کچھ قانون لاگو کیے جانے چاہئیں، ہر کام کرنے کی آزادی دینے کا مقصد صرف اپنا منہ کالا کرنے کے مترادف ہے۔

آپ دیکھیں کیا ہو رہا ہے ارد گرد، بس پیسہ کمانے کی دھن سوار ہے، پاکستان کی ماڈلز اداکارائیں کیا کام کررہی ہیں بھارت جاکر؟ چند پیسوں کے لئے عورت کے وجود کو شرمندہ کرنے والی یہ اداکارائیں، ٹیلنٹڈ کہلاتی ہیں، میں کہتی ہوں واقعی بہت ٹیلنٹڈ ہیں،کپڑے اتارنے کا کام واقعی بہت مشکل ہے اس کے لئے واقعی بہت ٹیلنٹ چاہیے، پھر عزت و تکریم سے بھی نوازی جاتی ہیں اور تمغہ یہ مل جاتا ہے کہ پاکستان کو پروموٹ کر رہی تھیں۔

پاکستان ایک اسلامی ملک ہے اور ریاست کی ذمے داری ہے کہ وہ میڈیا کے کچھ اصول و قواعد،سنسر شپ پالیسیز اور غیر اخلاقی مغربی مواد تک صارف کی رسائی چاہے وہ انٹرنیٹ ہو یا ٹی وی چینلز اور کیبل آپریٹرز، یا ملک میں بسنے والے آرٹسٹ ہوں، کچھ پابندیاں اور اصول ترتیب دے ، جس میں میڈیا میں کام اور کام کے معیار پر سخت مانیٹرنگ باڈی ترتیب دی جائے جو فعال ہوتاکہ ایک ضابطہ اخلاق کے تحت کام کیا جائے۔

کیوں حکومت اندھی بنی بیٹھی ہے؟ کہاں گئے پیمرا کے اصول؟ کہاں گیا اسلامی جمہوریہ پاکستان کا قیام؟ اور کہاں گیا قائد اعظم کا پاکستان،یہ بلاشبہ ہم سب کے لئے ہے بڑا سوالیہ نشان!

(بشکریہ ہم سب)

Comments are closed.