کرپشن کا آشیانہ

شمشاد مانگٹ

میاں نواز شریف کی رہائی پر منگوائی گئی مٹھائی ابھی ختم نہیں ہوئی تھی کہ مسلم لیگ (ن) پر ایک اور آفت آن پڑی ہے اور اس بار نیب نے ”چھوٹے میاں“ کو تمام ثبوتوں سمیت دھرلیا ہے۔ میاں شہباز شریف کی گرفتاری کے بعد ملکی سیاست میں ہنگامہ اور بھونچال برپا ہوچکا ہے۔ میاں شہباز شریف کی گرفتاری کے بعد پیپلزپارٹی کو بھی اپنی صفِ اوّل کی قیادت سلاخوں کے پیچھے دکھائی دینے لگی ہے۔ سندھ کے رہنماء منظور وسان کو جب اپنی قیادت کے بارے میں اچھا خواب آتاہے تو فوراً بیان کردیتے تھے اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انہیں کافی دنوں سے اچھے خواب نہیں آرہے اور برے خواب وہ بتا کر خود مشکل میں نہیں پھنسنا چاہتے۔

میاں شہباز شریف کی گرفتاری کے بعد رانا مشہود کی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مبینہ ڈیل کی گتھی بھی سلجھ گئی ہے۔ چند روز پہلے میاں شہباز شریف کے کہنے پر رانا مشہود نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ڈیل کی خبر اڑائی تھی اور ساتھ ہی یہ دعویٰ بھی کردیا تھا کہ دو ماہ بعد پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت ہوگی اور یہ کہ اسٹیبلشمنٹ کیلئے میاں شہباز شریف ہمیشہ سے قابل قبول رہے ہیں ۔ رانا مشہود نے یہ واردات اسی طرح کی تھی جس طرح مشاہد اللہ خان نے میاں نواز شریف کے کہنے پر اسٹیبلشمنٹ پر ”خود کش“ حملہ کرکے اپنی وزارت گنوا کر قیادت کی نظر میں مزید عزت پائی تھی۔

رانا مشہود نے جونہی ”بے پرکی“ اڑائی تو اس کا نوٹس مسلم لیگ (ن) نے رائیونڈ میں بھی لیا اور اسٹیبلشمنٹ نے بھی اس کا سخت برا منایا۔ میاں شہباز شریف نے رانا مشہود کے ذریعے نیب کو دباؤ میں لانے کی کوشش کی اور یہ تاثر پیدا کیا کہ اسٹیبلشمنٹسے ہمارا معاملہ ٹھیک ہوگیا ہے۔ اس لئے نیب ”ہتھ ہولا“ رکھے۔ لیکن رانا مشہود کے بیان پر آئی ایس پی آر کے سخت ردِعمل کے بعد مبینہ ڈیل بارے تمام راز افشا ہوگئے۔ مسلم لیگ (ن) کے اندر یہ خبر تقریباً 15 روز پہلے سے موجود تھی کہ فواد حسن فواد نے تمام راز اگل دیئے ہیں اور وہ وعدہ معاف گواہ بھی بن چکا ہے۔ اسی لئے خواجہ سعد رفیق نے چند روز سے یہ گردان شروع کردی تھی کہ موجودہ حکومت نے اپوزیشن کے گِرد گھیرا تنگ کرنا شروع کردیا۔

مشاہد اللہ خان بھی بار بار حکومت سے پنگا اسی لئے لے رہے تھے تاکہ شہباز شریف کی گرفتاری کے بعد یہ ”رولا“ ڈالا جاسکے کہ حکومت نے انتقامی کارروائی کی ہے۔ حالانکہ یہ کارروائی اسی نیب نے کی ہے جس نے سندھ میں ڈاکٹر عاصم کو گرفتار کیا اور پھر 90 روزہ ریمانڈ پر رکھا اور یہ گرفتاری اسی نیب نے کی ہے جس نے شرجیل میمن کو گرفتار کیا اور ابھی تک تفتیش جاری ہے۔ سندھ میں جب نیب کارروائیاں کررہا تھا تو یہی میاں شہباز شریف اور پنجاب کے ”خواجگان“ بغلیں بجا بجا کر آصف علی زرداری اور ان کے ساتھیوں کو چور اور ڈاکو کہتے تھے۔ میاں نواز شریف کا یہ بھی کمال ہے کہ خود ڈوبتے ڈوبتے آصف علی زرداری کیلئے ڈوبنے کا سامان پیدا کر گئے ہیں۔ آصف علی زرداری اور محترمہ فریال تالپور کے خلاف منی لانڈرنگ کی جو تحقیقات ہورہی ہیں یہ کیس میاں نواز شریف نے ہی بنائے تھے۔

چونکہ میاں نواز شریف جب بھی اقتدار میں ہوتے ہیں انہیں یہ یقین ہوتا ہے کہ ان کے سوا باقی سب سیاستدان کرپٹ ہیں اور وہ مارے جائیں گے۔ پیپلزپارٹی سے میثاق جمہوریت ہونے کے باوجود میاں نواز شریف نے چوہدری نثار کے نام پر پیپلزپارٹی کو سندھ میں کامیابی کے ساتھ نشانہ بنایا۔ مگر حیرت انگیز بات یہ ہے کہ میاں نواز شریف آصف علی زرداری کو جیل بھجوانے سے پہلے خود اپنے خاندان سمیت جیل کی ہوا کھا چکے ہیں۔

آصف علی زرداری اور فریال تالپور کا معاملہ ابھی زیر تفتیش ہے مگر صورتحال نازک بتائی جاتی ہے اور منی لانڈرنگ کے ناقابل تردید ثبوت سامنے آرہے ہیں۔ میثاق جمہوریت کے نام پر مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی نے تقریباً دس سال تک اقتدار کی بہاروں کے مزے لئے لیکن اب دونوں کے سیاسی ”آشیانوں“ میں آگ لگی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔

میاں شہباز شریف کا تکیہ کلام تھا کہ ایک دھیلے کی بھی کرپشن ثابت ہوجائے تو مجھے چوک میں الٹا لٹکا دیا جائے لیکن فواد حسن فواد نے 14 ارب روپے کی کرپشن کے ثبوت دے دیئے ہیں۔ میاں شہباز شریف دھیلا دھیلا کرتے رہے اور بیورو کریسی نے ان کے کھاتے میں کرپشن کے کئی ”تھیلے“ نکال کر رکھ دیئے ہیں۔

احد چیمہ اور فواد حسن فواد کی گرفتاری کے بعد پنجاب میں بیورو کریسی نے روائیت سے ہٹ کر قلم چھوڑ ہڑتال کا ڈرامہ شروع کرنے کی کوشش کی تھی جو کہ ابتداء میں ہی ناکام ہوگئی۔ میاں نواز شریف ”دباؤ“ دے کر اور میاں شہباز شریف ”پاؤں“ پکڑ کر اسٹیبلشمنٹ سے معاملات سدھارنے کی کوشش کرتے رہے لیکن اسٹیبلشمنٹ نے نہ دباؤ قبول کیا اور نہ ہی پاؤں پڑنے والوں کو معاف کیا۔ میاں شہباز شریف کی گرفتاری کو سیاسی انتقام کا نام صرف وہ لوگ دے رہے ہیں جو اقتدار کا ”گنّا“ میاں شہباز شریف کے ساتھ مل کر چوستے رہے ہیں وگرنہ میاں شہباز شریف کی گرفتاری سے قانون کی عملداری کو تقویت ملی ہے۔

میاں شہباز شریف کی گرفتاری سے پہلے چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال پر یہ دباؤ تھا کہ وہ صرف چھوٹی مچھلیوں کو پکڑنے کی ہمت رکھتے ہیں جبکہ کرپشن کے سمندر میں منہ کھولے بیٹھے ہوئے مگرمچھوں سے انہیں خوف آتا ہے۔ میاں شہباز شریف کی گرفتاری کے بعد یہ تاثر دم توڑ گیا ہے اور اب نیب کو بااثر لوگوں کو پکڑنے میں آسانی رہے گی۔

نیب کی عملداری اور غیر جانبداری برقرار رکھنے کیلئے یہ بھی ضروری ہے کہ وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری اور صوبائی وزیر اطلاعات فیض الحسن چوہان نیب کی ترجمانی سے گریز کرتے ہوئے صرف اپنے کام پر توجہ دیں۔ اگر حکومت نیب کی ترجمانی کرے گی تو پھر نیب کا کردار مشکوک ہوجائے گا۔ نیب کو اگر کھل کر کام کرنے کا موقع دیا گیا تو دھیلے کی کرپشن نہ کرنے کے کئی اور دعویدار اربوں روپے کی کرپشن میں پکڑے جائیں گے۔ بہر حال مسلم لیگ (ن) کی بڑی ہمت ہے جو تمام ثبوت دیکھ کر بھی دعویٰ کررہی ہے کہ میاں شہباز شریف نے ایک دھیلے کی بھی کرپشن نہیں کی۔ ابھی تو آشیانہ ہاؤسنگ سکیم میں 14 ارب کی کرپشن سامنے آئی ہے جبکہ صاف پانی سکینڈل کی تحقیقات بھی آخری مرحلے میں ہیں اور دانش سکولوں میں کرپشن کی دانشوری کی داستانیں بھی کھلنے والی ہیں۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا نیب میاں شہباز شریف سے ڈاکٹر عاصم اور شرجیل میمن کی طرح ہی تفتیش کرے گی یا پھر پنجاب کے سابق حکمرانون کیلئے ”طرز تفتیش“ میں سہولتیں پیدا کی جائیں گی؟ آنے والے دنوں میں ساری صورتحال واضح ہوجائے گی۔

Comments are closed.