پنجاب میں کم سے کم تنخواہ20ہزار مقرر، عمل کون کرائے گا؟

محبوب الرحمان تنولی

اسلام آباد:وزیراعلیٰ پنجاب نے یوم مئی کے موقع پر مزدور کی کم سے کم اجرت 20 ہزار روپے مقرر کرنے کا اعلان کردیا ہے۔

یوم مئی کی مناسبت سے جاری بیان میں وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے کہا کہ لاہور،ننکانہ صاحب اور ملتان میں محنت کشوں کو 1296 فلیٹس بھی الاٹ کردیے گئے ہیں۔

وزیراعلی ٰ پنجاب عثمان بزادار کا کہنا تھاکہ یہ سب تحریک انصاف کی حکومت کا محنت کشوں کے لیے تحفہ ہے اور پنجاب میں مزدور کو جو کم سے کم تنخواہ ملے گی وہ 20ہزار روپے ہوگی۔

واضح رہے گزشتہ سال کے وفاقی بجٹ میں وفاقی حکومت کی طرف سے جو کم سے کم تنخواہ مقرر کی گئی تھی وہ 17ہزار روپے تھی جو کہ اس سے اگلے سال 15ہزار مقرر کی گئی تھی۔

سچ یہ ہے کہ پاکستان میں حکومتوں کی طرف سے کم سے کم تنخواہ مقرر کرنے کے اعلانا ت سیاسی سٹنٹ کے سوا کچھ نہیں ہوتا ہے کیونکہ حکومت کی مقرر کردہ کم سے کم تنخواہ پر کہیں عمل نہیں ہوتا۔

جب کوئی ریاست اجرت کاتعین کرتی ہے تو اس سے مراد صرف سرکاری ادارے نہیں ہوتے بلکہ یہ اعلان نجی اداروں اور مختلف کمپنیوں ،نجی تعلیمی اداروں، کارخانوں کیلئے بھی ہوتا ہے ۔

جب یوم مزدور پر یہ اعلان کیا جائے کہ مزدور کی کم سے کم تنخواہ 20ہزار ہے تو اس پر عمل کون کرائے گا؟ فرض کریں مزدور کو حکومتی اعلانات کے باوجو د کہیں7اور کہیں10ہزار تنخواہ دی جاتی ہو تو پھر کس کاگریبان پکڑا جائے ؟

عثمان بزدار نے کم سے کم تنخواہ مقررکرتے ہی کریڈٹ لینے کیلئے کہا کہ یہ تحریک انصاف کی حکومت نے کیاہے ۔ یعنی صرف اعلان کیاہے، مزدور کو تب فائدہ پہنچے گا جب اس پر کوئی عمل درآمد کرائے گا۔

وفاقی و صوبائی حکومتوں کواس حوالے سے قانون سازی بھی کرنی چایئے تاکہ حکومتی اعلانات پر عمل درآمد ممکن ہو اور جہاں جو سرکاری یا نجی ادارے کم سے کم تنخواہ نہیں دیتے ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جاسکے۔


وزیراعظم عمران خان کو ملک میں مقرر کردہ کم سے کم تنخواہ پر عمل درآمد یقینی بنانے کیلئے خود آگے آنا چایئے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ کم سے کم تنخواہ ہر مزدور، ہرادارے میں کام کرنے والے کوملنی چایئے۔

تحریک انصاف اگر غریبوں کی بات کرتی ہے اور وزیراعظم اٹھتے بیٹھتے ریاست مدینہ کی بات کرتے ہیں تو یہ کام کرکے دکھائیں تاکہ چھوٹے طبقہ کو انصاف اور ان کی محنت کو کچھ تو صلہ ملے۔

پاکستان میں بڑے بڑے نجی ادارے، کمپنیاں اور کارخانے ایسے ہیں جہاں مزدور یا ڈیلی ویجز پر کام کرنے والوں کو 10سے 12ہزار تنخواہ ملتی ہے لیکن انھیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے اورنہ ہی ایسا کوئی قانون ہے کہ اس پر عملدرآمد کرایا جاسکے۔

اگر کوئی ایسا قانون موجود ہے جو مزدور کی کم سے کم تنخواہ کو یقینی بنا سکتاہے تو اس کی میڈیا پر تشہیر کرکے اس پر عمل درآمد ممکن بنایا جانا چایئے، کم سے کم تنخواہ پر عمل درآمد کئے بغیر سیاسی اعلانات مزدوروں کے زخمیوں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہیں۔

Comments are closed.