ُُ بیجنگ میں حلا ل کھانے کی تلاش( تیسری قسط)

تحریم عظیم


علم حاصل کرو خواہ تمہیں چین جانا پڑے۔

ہمارا اس روایت پر یقین دیکھیں کہ جب اعلیٰ تعلیم کا سوچا تو ذہن میں پہلا خیال چین کا ہی آیا۔ لوگ کہتے رہ گئے کہ امریکا، برطانیہ، یورپ یا کینیڈا چلی جاو۔ وہاں تعلیم مکمل ہونے کے بعد نوکری ملنے کے امکانات بھی ہوں گے اور تم تا عمر وہاں رہ سکو گی۔

کہنے والے بالکل ٹھیک کہہ رہے تھے۔ بے شک امریکا، برطانیہ یا یورپ جانے کی صورت میں انسان کی زندگی بننے کے امکانات چین کی نسبت زیادہ ہیں، لیکن آپ خود بتائیں پاکستان میں کتنے خاندان اپنی بیٹیوں کو خوشی خوشی باہر پڑھنے بھیجتے ہیں؟ ہمیں یہیں بھیج دیا ہمارے لیے یہی بہت ہے۔

ہم نے یہاں آکر دیکھا کہ چین کا تعلیمی نظام اتنا بھی بُرا نہیں ہے جتنا پاکستان میں تصور کیا جاتا ہے۔ چین کی نچلے درجے کی یونیورسٹی کا معیار بھی پاکستان کی بہترین یونیورسٹی سے کئی درجے بہتر ہے۔ دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں کی فہرست دیکھیں تو پہلی 100 یونیورسٹیوں میں کئی نام چینی یونیورسٹیوں کے ہیں۔ چین کی 2 بہترین یونیورسٹیاں، سنگھوا یونیورسٹی اور پیکنگ یونیورسٹی کا شمار دنیا کی بہترین 20 یونیورسٹیوں میں ہوتا ہے۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ پاکستان میں ان سے فارغ التحصیل طالب علموں کو بھی ‘چینی ڈگری’ کا طعنہ سننا پڑتا ہے۔

ہمارے نزدیک چینی یونیورسٹیوں کا جو بھی مقام ہو، دنیا کے نزدیک ان کی بہت اہمیت ہے۔ ہر سال دنیا بھر سے ہزاروں کی تعداد میں طالب علم اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے چین آتے ہیں۔ چین کی وزارتِ تعلیم کے مطابق سال 2018ء میں چین کی مختلف جامعات میں زیرِ تعلیم غیر ملکی طالب علموں کی کل تعداد قریباً 5 لاکھ تھی۔ ہر نیا آنے والا سال اس عدد میں پچھلے سال کی نسبت اضافہ کر رہا ہے۔

غیر ملکی طالب علم ڈگری اور نان ڈگری دونوں طرح کے پروگرام میں داخلہ لیتے ہیں۔ کچھ اپنے پیسوں پر تعلیم حاصل کرتے ہیں تو کچھ چینی حکومت یا دیگر اداروں کی جانب سے دی جانے والی اسکالرشپ پر اپنی تعلیم مکمل کرتے ہیں۔

آپ کی دلچسپی کے لیے عرض ہے کہ چین میں غیر ملکی طالب علم بھیجنے والے 5 بڑے ممالک بالترتیب جنوبی کوریا، تھائی لینڈ، پاکستان، بھارت اور امریکا ہیں۔ دیکھیں امریکا سے بھی طالب علم تعلیم حاصل کرنے چین آتے ہیں اور چین سے بھی ہر سال بہت سے طلبہ تعلیم کی خاطر امریکا جاتے ہیں۔

ہم اپنے پچھلے بلاگ میں بتا چکے ہیں کہ ہماری یونیورسٹی چین میں علومِ ابلاغیات کے لیے بہترین تصور کی جاتی ہے۔ ہم اس سے پہلے پنجاب یونیورسٹی میں اپنی زندگی کے 2 سال ضائع کرچکے تھے۔ ان 2 سالوں میں ہمیں متعدد بار بتایا گیا کہ یہ تو کوئی فیلڈ ہی نہیں ہے۔ بس اخبار پڑھیں اور ٹی وی دیکھیں، اس ڈگری کے لیے یہی کرنا ہوتا ہے۔ مجال ہے کبھی کسی پروفیسر نے اپنا کوئی مقالہ کلاس میں پڑھا ہو یا کوئی پریزنٹیشن دی ہو۔ اب سنا ہے حالات قدرے بہتر ہیں، اُس وقت تو آوے کا آوہ بگڑا ہوا تھا۔

ہم چین آئے تو ہمیں اس فیلڈ کی وسعت کا اندازہ ہوا۔ پہلی ہی کلاس میں پروفیسر نے اپنے 3 مقالوں کی نقول سب کو پکڑا دیں اور چوتھے پر پریزنٹیشن دے دی۔ بقیہ کورسز شروع ہوئے تو ہمیں ایسے لگا جیسے ہمیں پاکستان میں علومِ ابلاغیات کے نام پر جو کچھ بھی پڑھایا گیا تھا وہ بس ایک دھوکا تھا۔ وہاں طلبہ کو بس کہا جاتا تھا کہ اخبار پڑھیں، ٹی وی دیکھیں، یہاں کیس اسٹڈیز تھیں، ریسرچ تھی، تاریخ تھی اور تھیوری تھی اور یہ سب ایسے پڑھایا جاتا تھا جیسے اس سے اہم مضمون دنیا میں اور کوئی نہیں۔

پڑھائی کے ساتھ ساتھ تفریح بھی خوب ہوتی تھی۔ کبھی کوئی پروفیسر میڈیا ہاوس لے جاتا تھا تو کوئی تھری ڈی فلم دکھانے سنیما لے جاتا تھا۔ انہی دنوں ہم نے چین میں نیو میڈیا کا بڑھتا ہوا رجحان بھی دیکھا۔ پاکستان میں اب کہیں آکر نیو میڈیا کو سنجیدہ لیا جا رہا ہے، چین یہ کام کئی سالوں سے کر رہا ہے۔

دیگر یونیورسٹیوں کا بھی کم و بیش کچھ ایسا ہی نظام ہے۔ نیچرل سائنس کے طلبہ اپنے پروفیسر کے ساتھ لیب میں کام کرتے ہیں جو جدید ترین آلات اور ٹیکنالوجی سے لیس ہوتی ہیں۔ آپ پاکستان میں ایسی جدید لیبز کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ پروفیسر اپنے طالب علم کے کام سے خوش ہو تو اس کا وظیفہ بھی باندھ دیتا ہے۔ جن طلبہ کا پروگرام چینی زبان میں ہو انہیں ایک سال چینی زبان بھی سکھائی جاتی ہے۔ ہمارا کورس انگریزی میں تھا تو ہمیں چینی زبان کا بنیادی سا کورس کروایا گیا تاکہ ہم حال احوال پوچھنے/بتانے اور سودا سلف خریدنے کے قابل ہوسکیں۔

چینی یونیورسٹیوں میں غیر ملکی طالب علموں کے داخلے کا طریقہ کار چینی طالب علموں سے بہت مختلف ہے۔ چینی طلبہ کو یونیورسٹی میں داخلہ حاصل کرنے کے لیے ایک سخت امتحان دینا پڑتا ہے جسے چینی زبان میں گاو کاو کہا جاتا ہے۔ یہ امتحان ہر سال جون کے مہینے میں منعقد کیا جاتا ہے۔ چینی طلبہ کالج کے آخری سال میں ہی اس امتحان کی تیاری شروع کردیتے ہیں۔ اس امتحان میں ان کی چینی لٹریچر، حساب اور کسی غیر ملکی زبان پر ان کی مہارت جانچی جاتی ہے۔

امتحان دینے سے قبل ہر چینی طالب علم ایک فارم پُر کرتا ہے جس میں وہ اپنی پسند کی 3 سے 4 یونیورسٹیوں کا اندراج کرتا ہے۔ ہر یونیورسٹی کا علیحدہ میرٹ ہوتا ہے۔ اگر طالب علم اپنی پسند کی یونیورسٹی کے میرٹ سے زیادہ نمبر حاصل کر لے تو اسے وہاں داخلہ مل جاتا ہے ورنہ اسے فارم پر درج کی گئی دوسری یونیورسٹی میں داخلہ ملتا ہے بشرطیکہ وہ اس کے میرٹ پر پورا اتر رہا ہو۔ اگر کوئی طالب علم اپنی درج کی گئی کسی بھی یونیورسٹی کے میرٹ پر پورا نہ اتر رہا ہو تو اسے اگلے سال دوبارہ گاو کاو کا امتحان دینا پڑتا ہے۔ اس امتحان کو پاس کیے بغیر وہ یونیورسٹی میں داخلہ حاصل نہیں کرسکتا۔

چین میں کئی سرکاری ادارے غیر ملکی طلبہ کو اسکالر شپ دیتے ہیں۔ ان میں سب سے نمایاں چائنہ اسکالرشپ کونسل ہے۔ اس کے علاوہ کئی بڑے شہروں جیسے کہ بیجنگ اور شنگھائی کی اپنی اپنی اسکالر شپ بھی موجود ہیں۔ علاوہ ازیں بہت سی یونیورسٹیاں بھی اپنے فنڈز میں سے غیر ملکی طالب علموں کو اسکالر شپ دیتی ہیں۔

چائنہ اسکالر شپ کونسل کی فل اسکالر شپ میں یونیورسٹی اور ہاسٹل کے تمام تر اخراجات کونسل برداشت کرتی ہے۔ بیچلر اور ماسٹر کے طلبہ کو ہاسٹل کا کمرہ شیئرنگ کی بنیاد پر ملتا ہے جبکہ پی ایچ ڈی طلبہ کو علیحدہ کمرہ دیا جاتا ہے تاکہ وہ یکسوئی سے اپنا کام کرسکیں۔ اس کے علاوہ طالب علم کو ماہانہ وظیفہ بھی دیا جاتا ہے۔ بیچلر کے طالب علم کو ماہانہ 2 ہزار 500 یوآن، ماسٹر کے طالب علم کو ماہانہ 3 ہزار یوآن اور پی ایچ ڈی کے طالب علم کو ماہانہ 3 ہزار 500 یوآن بطور وظیفہ دیے جاتے ہیں۔ ایک یوآن آج کل 23، 24 پاکستانی روپے کا ہے، بقیہ حساب آپ خود کرلیں۔

ان پیسوں میں طالب علم کو بس اپنے کھانے پینے کا انتظام کرنا ہوتا ہے۔ بعض یونیورسٹیاں طلبہ سے بجلی کا بل بھی وصول کرتی ہیں لیکن وہ زیادہ سے زیادہ سو یا ڈیڑھ سو یوآن تک ہوتا ہے۔ کھانے اور پینے کے اخراجات کی بات کریں تو وہ آسانی سے ہزار یوآن میں نبٹائے جاسکتے ہیں۔

یونیورسٹی کیفیٹیریا میں ایک وقت کا کھانا 7 سے 10 یوآن میں خریدا جاسکتا ہے۔ باہر سے کھانا چاہیں تو بیجنگ میں نوڈلز کی ایک پلیٹ 18 سے 20 یوآن میں مل جاتی ہیں۔ مکڈونلڈز سے فلے او فش برگر بمعہ چپس اور کولا 25 یوآن میں مل جاتا ہے۔ اپنا کھانا بنانا چاہیں تو وہ مزید سستا پڑتا ہے۔ آدھا کلو مرغی 9 یوآن میں مل جاتی ہے جبکہ آدھا کلو بیف اور مٹن کی قیمت 40 سے 42 یوآن ہے۔ دیسی انڈے 16 سے 18 یوآن میں آدھا کلو مل جاتے ہیں۔ یاد رہے کہ چین میں خرید و فروخت کی اکائی آدھا کلو ہے۔

چینی یونیورسٹیاں خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ہوتی ہیں۔ کچھ یونیورسٹیاں تو باقاعدہ ثقافتی ورثے کا درجہ رکھتی ہیں۔ ایسی یونیورسٹیوں کے عوامی حصوں میں ہر وقت رش لگا رہتا ہے۔ لوگ اپنے خاندان کے ساتھ وہاں آتے ہیں اور اپنا وقت گزارتے ہیں۔ انتظامیہ یونیورسٹی کو مختص جگہ کا بھرپور استعمال کرتی ہے۔

یونیورسٹی کیمپس میں تدریسی اور رہائشی عمارتوں کے علاوہ کھیلنے کا میدان، جم اور سوئمنگ پول کی سہولتیں بھی موجود ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ جھیل، آبشاریں اور باغات بھی بنے ہوتے ہیں۔ شام میں بہت سے طلبہ اکیلے یا اپنے ساتھیوں کے ساتھ جھیل کنارے بیٹھے دکھائی دیتے ہیں۔ یہاں طلبہ تنظیم نام کی کوئی شے موجود نہیں۔ کسی نے اپنے ساتھی کا ہاتھ پکڑا ہو یا اس کے کاندھے پر سر رکھا ہو تو کسی کو ان کا ایمان بچانے کی فکر نہیں ستاتی۔

بعض یونیورسٹیاں تو اتنی بڑی ہیں کہ وہاں طلبہ کو ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کے لیے سائیکل کا استعمال کرنا پڑتا ہے۔ اکثر پروفیسر بھی سائیکل چلاتے نظر آجاتے ہیں۔ چین میں کرائے کی سائیکلیں بھی مل جاتی ہیں۔ چار سال قبل بہت سی کمپنیوں نے چین کے کئی بڑے شہروں میں کرائے کی سائیکلیں رکھ چھوڑی تھیں۔ ہر کمپنی کی اپنی موبائل ایپ ہے۔ اس ایپ کی مدد سے سائیکل پر موجود کوڈ اسکین کرکے اسے ان لاک کیا جاسکتا ہے، اور منزل پر پہنچ کر سائیکل کو دوبارہ سے لاک کیا جا سکتا ہے۔

ہمارے لیے تو چین آنا اور یہاں سے تعلیم حاصل کرنا بہت اچھا تجربہ رہا۔ اسی لیے ہم نے پی ایچ ڈی کے لیے بھی چین ہی آنے کا فیصلہ کیا۔ اب یہ ہماری قسمت کہ پی ایچ ڈی کے پہلے سمسٹر کے بعد ہی کورونا آگیا اور ہم کیمپس تک محدود ہوکر رہ گئے۔ اب کہیں جاکر یونیورسٹیاں اپنے معمول پر واپس آنا شروع ہوئی ہیں۔ دیکھیں، ہمارا باقی ماندہ وقت اب کیسا گزرتا ہے۔ ۔ جاری ہے
(بشکریہ ڈان نیوز)

Comments are closed.