مولانا طارق جمیل نے معذرت کیوں کی؟

محبوب الرحمان تنولی

مجھ ایسا تھوڑی عقل والا کوئی غلطی کر تا ہے تو بعد میں کئی کئی گھنٹوں تک سوچتا اور اس پر پشیماں رہتاہے،توبہ کرتاہے آئندہ یہ غلطی نہ دہرانے کا اللہ سے او ر اپنے آپ سے وعدہ کرتاہے۔۔وہ تو مولانا طارق جمیل ہیں۔۔وہ طار ق جمیل جھنیں اللہ پاک نے لوگوں کی زندگیاں تبدیل کرنے کا ہنر دیاہے۔۔یقینا انھوں نے سیاسی معافی نہیں مانگی۔۔ انھیں غلطی کا احساس ہوا ہے اسی لئے غیر مشروط معافی مانگی ہے ۔۔قوم سے بھی اور ان جھوٹوں سے بھی، جو ہر دن کے ساتھ اپنا قبلہ ، اپنا موقف ، اپنی دلیل،اپنی سوچ اور اپنی پسند بدلتے ہیں۔۔وہ جو چھچھورے انداز میں قوم کیلئے بھیک مانگنے کی قطار میں بیٹھے تھے لیکن وہاں بھی لطیفے بازی اور جگتیں مارتے رہے۔۔ لگتا ہی نہیں تھا کہ وہ کسی چیئرٹی ٹیلی تھون میں ہیں ۔۔ وہ اسے عید شو کی طرح غیر سنجیدہ لے کر باچھیں نتھنوں تک پھیلا رہے تھے۔۔سوائے، ایثار رانا صاحب کے ۔۔ کسی نے ان سے اس رویہ کی معافی مانگنے کا مطالبہ نہیں کیا ۔

میں اس نشریات کے بعد سوشل میڈیا پر امڈنے والے طوفان بد تمیزی کی وجہ سے شدید کرب میں ہوں۔۔میری حیرت کی انتہا ہے کہ وہ ،وہ لوگ مولانا طارق جمیل صاحب کو درباری، سیاستدان،خوشامدی اور پتہ نی کیا کیا القابات دے کر معافی مانگنے کے مطالبے کررہے ہیں جن کا اپنا کوئی معیار ہی نہیں ہے۔۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہر ایک کو رائے رکھنے اور دینے کا حق ہے ۔۔ لیکن یہ حق استعمال کرنے کیلئے ضروری ہے زرا ضمیر کی عدالت کا بھی رخ کرلیا جائے۔۔۔ کہاں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے اذکار سے لوگوں کی زندگیاں بدلنے والا ایک عالم دین اور کہاں وہ نقاد جو پست ترین دلیل ۔۔ کھاتا ہے تو لگاتا بھی ہے کہ حامی۔۔مخالفت اصول اور دلیل کے ساتھ ہونی چایئے۔۔ بخل کے ساتھ نہیں۔۔۔رائے دینے میں بخیلی کیاہے؟ ۔۔ مثلاً۔ نواز شریف لوہار ہے ۔۔ اسے کیاپتہ سیاست کیاہوتی ہے؟ یہ فقرہ تنقید نہیں بخیلی ہے۔۔نوازشریف کے طرز سیاست سے اختلاف ہوسکتا ہے لیکن اس حقیقت کی ہی نفی کردی جائے کہ وہ سیاستدان نہیں ہے۔ یہ رائے نہیں کہلاتی۔۔بخل ہے۔

مولانا طارق جمیل کے خلاف بولنے والوں نے اسی بخل سے کام لیا ۔۔بعض ظالموں نے تو سوشل میڈیا پر انھیں عالم دین ماننے سے بھی انکار کیا۔۔وہ یہ بھول گئے ۔۔ اسٹار کرکٹر ز سعید انور، محمد یوسف، انضمام الحق ،مشتاق احمد، جنید جمشیدمرحوم،فیروز خان اور بے شمار دیگر نام۔۔صرف طارق جمیل صاحب سے مل کر یا ان سے متاثر ہو کر رائے راست پہ چل پڑے۔۔پڑھتے پڑھتے زرا حوصلہ سے کام لیجیے میں ان پوائنٹس پر آخرمیں بات کروں گا جن کی وجہ سے مولانا ۔۔تنقید کی ذد میں ہیں۔۔۔پاکستان میں عالم فاضل علمائے کرام کی کمی نہیں ہے لیکن رمضان المبارک کو ہی لے لیجئے۔۔سحری افطاری میں تقریباً ہر گھر میں مولانا کی پر تاثیرتقریر چل رہی ہوتی ہے۔۔یہ شاید انگلیوں پر گنے چنے ان علماء میں شامل ہیں جھنوں نے کافر کافر کے فتوے دینے والوں کا راستہ روکا۔۔ خود پر تنقید برداشت کرلی لیکن معاشرے کو ہمیشہ روشنی کی طرف راغب کیا۔۔ راستہ نکالا ۔۔مایوس لوگوں کو بتایا کہ اللہ بڑا معاف کرنے والا ہے پلٹ آو اللہ کی طرف۔

مولانا طارق جمیل صاحب سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے ساتھ بھی چلتے رہے ۔۔ ان کی کابینہ سے خطاب بھی کیا۔ ۔ سابق صدر پرویزمشرف صاحب کو بھی جب ان کی ضرورت پڑی وہ بھی مدعو کرتے رہے۔۔۔لیکن تب کسی نے یہ رائے قائم نہیں کی کہ وہ درباری ہیں یا حاکم وقت سے ملتے ہیں۔۔ لیکن بد قسمتی سے پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کے ساتھ ان کی قربت پر طرح طرح کی کہانیاں گھڑی گئیں۔۔وہ وزیراعظم کے ریاست مدینہ تصور کی تعریف کریں تب مسلہ۔۔ عمران خان سے جپھی ڈال کر ملیں تب بحث ۔۔ عمران خان کیلئے دعا کردیں پھر پیٹ میں مروڑ۔۔ہم کیوں چاہتے ہیں کہ مولانا طارق جمیل ایسے چلیں جیسے ہم چاہتے ہیں۔۔ ایسا بولیں جیسے ہم چائیں۔۔ کس سے ملیں کس سے نہ ملیں۔۔کیا الفاظ ادا کریں کیا نہ کریں۔

مولانا صاحب نے بہت اچھا سپل کرتے کرتے ایک فل ٹاس کردی ۔۔ ایک ہی بال پر سب نے چھکے چوکے مارے ۔۔ دل کی ساری بھڑاس۔ بخل ۔ کینہ ظاہر کردیا۔۔ زمانے سے ذہنوں میں پکے ہوئے القابات دینا شروع کردیئے۔۔میرے کئی صحافی دوستوں نے بھی میڈیا جھوٹا ہے کہہ کر مولانا کے الفاظ پر سروے کر ڈالے۔۔۔ مجھ سے بھی کئی ایک نے یہی سوال کیا۔۔۔ انھیں بتایا کہ جو کہا ۔ جیسا کہا ۔۔ میں اس پر رائے نہیں دے سکتا۔۔ خدا کی قسم میں طارق جمیل صاحب کو خود سے بہت بہتر سمجھتا ہوں۔۔ میرا یہ لیول ہی نہیں کہ میں طارق جمیل یا علمائے کرام کے بارے میں رائے دوں۔۔بعض عادی نقادوں کی زبان کوجلاب لگے ہوتے ہیں۔۔ وہ یہ موازنہ کئے بغیر کہ ایک عالم دین اور عام آدمی میں کوئی فرق بھی ہوتا ہے۔۔ ایسے الفاظ دے مارتے ہیں کہ بندہ انگشت بندنداں رہ جاتاہے۔۔

زرا سوچیئے تو۔۔۔مولانا طارق جمیل کوئی فرشتہ یا پیغمبر تو نہیں ہیں کہ ان سے غلطی کی توقع نہ کی جائے۔۔ وہ ہماری طرح کے انسان ہیں اگر ہم دن میں بیسیوں غلطیاں کرسکتے ہیں۔۔ منہ اٹھا کر کسی کو کافر کہہ سکتے ہیں۔۔ سیاستدانوں کے خلاف وہ زبان استعمال کردیتے ہیں جن کو عام زندگی میں گالی سمجھا جاتاہے۔۔کسی کوچور، ڈاکو،عیار ، مکار ، شوخہ،منافق ، فراڈی اورپتہ نی کیا کیا کہہ دیتے ہیں پھر بھی ہم سمجھتے ہیں یہ کہنا ہمارا حق ہے۔۔ہمیںآ زادی اظہاررائے کا حق حاصل ہے۔۔آصف زرداری صاحب کو ڈاکو ثابت ہوئے بغیر ڈاکو کہہ دیں ٹھیک۔۔نواز شریف کو چورچور کہتے رہیں درست۔۔ عمران خان کی اہلیہ تک پر تبصرے کرتے پھریں تو آزادی اظہار رائے۔۔ اور کبھی مولانا طارق جمیل جوش خطابت میں یا بولنے کاحق سمجھ کر میڈیا کو جھوٹا کہہ دیں تو ۔۔سب مولانا صاحب کے خلاف اتحاد کرلیں۔۔ ٹی وی چینلزکی سکرینز اور سوشل میڈیا سنھبال کر گولہ باری شروع کردیں۔۔یہ کہاں کاانصاف ہے؟

آپ کیا سمجھتے ہیں مولانا طارق جمیل صاحب کے پاس اپنے کہے الفاظ کادفاع کرنے کیلئے دلائل نہیں تھے؟ کیا وہ فرداً فرداً آپ کو جانتے نہیں ہیں؟۔۔ انھیں جواب دینا نہیں آتا تھا ۔۔ آتا تھا ۔۔وہ یقینا کسی بھی اینکر کے روبرو بیٹھ کر اسے لا جواب کرسکتے تھے۔۔ مگر انھیں پتہ تھاکہ اب بات دلیل کی نہیں رہی ۔۔ بخل رکھنے والوں کو بخیلی کا ٹاپک مل گیاہے۔۔ وہ یہ جانتے تھے کہ ان کے حامیوں اور مخالفوں میں ایک بحث و تکرار کا مرحلہ شروع ہونے لگا ہے۔۔ایسے میں مولانا نے بڑے پن کا مظاہر ہ کیا ۔ ۔ غیر مشروط معافی مانگی اور تکرارمیں پڑنے کی بجائے غلطی تسلیم کی اور بحث ختم کردی۔۔ سب کے منہ بند کردیئے۔۔ اب اگر کوئی جگالی کرتا رہے تو کرتارہے مولانا نے سب سے معذرت کرکے بحث سمیٹ دی ہے بلکہ یہ کہہ کر سب کو یاد کرایا ہے کہ میں بھی انسان ہوں مجھ سے بھی غلطی ہو سکتی ہے۔

آخر میں مولانا طارق جمیل صاحب سے بصد احترام گزارشات۔۔مولانا صاحب خدا کا واسطہ ہے اقتدار کی غلام گردشوں سے دوررہیں۔ آپ کی ان سے قربت نے نہیں بلکہ سیدھاراستہ دکھانے اور برے سے منع کرنے کے عمل نے آپ کومعتبرکیاہے۔۔آپ کولوگ اس لئے چاہتے ہیں کہ آپ اللہ اور رسولﷺ کی بات میٹھے اور پراثرانداز میں کرتے ہیں آپ کو اللہ پاک نے لوگوں کی زندگیا ں بدلنے کا ہنردیا ہے اس لئے آپ سے محبت نہیں کرتے کہ آپ نواز شریف یا عمران خان کے قریب ہیں۔۔ دوسری بات کچھ عرصہ تک میڈیا سے ہی وابستہ لوگ یو ٹیوب چینلزپر آپ کی تقاریر ڈال کر سیٹھوں کی ملازمت کے بغیر بھی روزی روٹی کماتے تھے آپ نے اپنا یوٹیوب چینل بنا کران سب کے روزی روٹی کا حق چھین لیا۔۔۔ امید ہے آپ نے صرف معذرت نہیں کی اس ایک تقریرسے بہت کچھ سیکھا ہوگا آپ کو یہ سمجھ بھی آ گئی ہو گی کہ سب سکھ میں ساتھ نبھاتے ہیں۔۔یادرہے میڈیا کے نام پرجن اینکرز نے طارق جمیل صاحب سے معافی منگوائی ۔ ملک میں ہزاروں صحافیوں کے بے روزگار ہونے پر ان کی زبانیں بند ہیں۔ سب سیٹھوں کے ساتھ ملے ہوئے ہیں۔ کیا یہ جھوٹ نہیں ہے ؟

Comments are closed.