موروثی سیاست والا جھانسہ اور اٹھارہ خاندانوں والی بھپتی

فرنود عالم

اس ملک کے سیاسی حلقوں میں ایک بڑا حلقہ وہ ہے، جو جنرل ایوب خان سے آج کی تاریخ تک ایک روایتی تسلسل میں چلا آ رہا ہے۔ یہ وہی طبقہ ہے، جو زیارت ریزیڈینسی میں قائد اعظم محمد علی جناح کی سانسیں گننے پر مامور تھا۔

اور آج یہی طبقہ قائد ہی کی وراثت کا دعوے دار بھی ہے۔ اس طبقے کا شجرہ دیکھنا ہو تو دیکھیے کہ جنرل ایوب خان فاطمہ جناح کا دوپٹہ کھینچنے کے لیے کن لوگوں کو بھیجا کرتے تھے۔ کبھی دیکھیے گا کہ ڈھاکا میں دانشوروں، اساتذہ کرام، ادیبوں، صحافیوں اور سیاسی کارکنوں کے قتل عام کے لیے تشکیل دیے جانے والے دستوں کی سالاری کن کے اجداد  کیا کرتے تھے۔

آگے کی تاریخ میں انہیں باجماعت دیکھنا ہو تو ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف لگنے والی عدالتوں میں دیکھیے کہ پہلی صف میں کارروائی کی سماعت کے لیے بے تابی کے ساتھ کون بیٹھتے تھے۔ جو رات بھٹو کی آخری رات تھی اُس رات شیرینیوں کی مہک کن کے گھروں سے اٹھ رہی تھی۔ اٹھاسی میں آمریت کی سیاہ رات سحر کی امید میں ڈوبی تو جنرل ضیا کے خلفاء کے گرد کون جمع ہوئے تھے۔

کبھی ایسا ہوتا ہے کہ سیاست کے اس حلقے سے کوئی تارا ٹوٹتا ہے اور ایک دوسرے حلقے میں آکر گرجاتا ہے۔ دوسرے حلقے کی طرف لپکنے کی وجہ سے اس تارے کی وفاداری ایک سوالیہ نشان بن جاتی ہے۔ یہ دوسرا حلقہ وہی ہے، جس کے لیے پاکستان کی سیاسی تاریخ میں دو طنز بہت سہولت سے ارزاں کیے جاتے ہیں۔ ایک، یہ اٹھارہ خاندانوں کا ایک مفاد پرست ٹولہ، جس کا پاکستان کے حالات سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ دوسرا، یہ موروثی سیاست کے علمبردار ہیں، جن کے ہاں سیاست خاندان سے شروع ہوتی ہے اور خاندان میں ختم ہوجاتی ہے۔

سچ یہ ہے کہ اٹھارہ خاندان والا طبقہ دراصل وہی ہے، جس نے اٹھارہ خاندان والا طنز خود ایجاد کیا ہے۔ یہ وہی طبقہ ہے، جو سیاست میں ہوا کا رخ دیکھ کر فیصلہ کرتا ہے کہ اب ہم نے کس کشتی میں سوار ہونا ہے۔ سیاست میں ان کا قبلہ طاقت کے غیر جمہوری مراکز ہیں۔فیصلے کا دن قریب آتا ہے تو یہ پر تولنے لگتے ہیں۔یہ طاقت کے اشارے دیکھتے ہیں اور ایک اڑان میں آشیانے بدل لیتے ہیں۔

 یہ سیاست کی دنیا میں اٹکتے بھٹکتے ازلی خانہ بدوش ہیں۔ ان کا ٹھکانہ ہے اور نہ کوئی منزل ہے۔ جہاں بارات دیکھتے ہیں وہیں رات گزار دیتے ہیں۔ ان میں اگر کچھ ایسے نظر آجائیں جن کے والدین کبھی سیاست میں نہ رہے ہوں، تو یہ گمان مت کیجیے گا یہ کسی گدی کے وارث نہیں ہیں۔ آنکھ رکھتے ہیں تو بغور دیکھیے گا کہ ان کے پاس طاقت کی غیر جمہوری میراث ہے، جو جنرل ایوب خان سے چلی ہے اور جنرل ضیا سے ہوتی ہوئی مشرف تک پہنچتی ہے۔

 اس گدی پر کبھی ائیر مارشل اصغر خان آئے تھے، کبھی میاں نواز شریف آئے تھے، اب عمران خان آئے ہیں اور اگلے وقتوں کے لیے شاہد خان آفریدی اور اقرار الحسن نے انہی جذباتی نعروں میں لپٹے ہوئے کاغذاتِ نامزدگی جمع کرا دیے ہیں۔ اب دیکھیے کہ وقت کب آتا ہے اور بلاوا کب آتا ہے۔ 

آپ کو کہا جائے گا، سیاسی جماعتوں میں خود جمہوریت نہیں ہے چنانچہ ان کی بیخ کنی کیجیے۔ اس سے مراد سیاست کی خیمہ بستی میں رہنے والے خانہ بدوشوں کی بیخ کنی ہرگز نہیں ہوتی۔ اس سے مراد ان سیاسی قوتوں کی بیخ کنی ہوتی ہے، جنہوں نے طاقت کے ساتھ یا تو سمجھوتہ نہیں کیا، یا سمجھوتہ تو کیا مگر پکے ووٹوں کے زعم میں دو چار شرطیں اپنی بھی رکھ دیں۔

 طاقت کا تقاضا یہاں بہت سیدھا اور بہت سادہ ہوتا ہے۔ ہم سے بیٹھ کر بات کیجیے اور ہماری ہی شرائط پر کیجیے۔ آپ آمادگی ظاہر کریں گے تو ہم حب الوطنی اور پاک دامنی کی تصدیق ایک ہی سند پر جاری کر دیں گے۔ سر مو انحراف کریں گے تو اس میں کیا شک رہ جائے گا کہ آپ غدار ابنِ غدار ہیں، اسلام دشمن ہیں اور ملک دشمن عناصر کے سہولت کار ہیں۔

اس کے سوا کوئی چارہ نہیں رہ جائے گا کہ شہر کے سارے محتسب آپ پر چھوڑ دیے جائیں۔ وہ محتسب، جن کی بخشش مثال ہے اور پکڑ بہت شدید ہے۔ عطا کرنے پر آتے ہیں تو لارج پیزوں کا پورا لنگر بخش دیتے ہیں، پکڑنے پر آئیں تو بیٹے کی کمپنی سے نہ لی ہوئی تنخواہ کا حساب بھی لے لیتے ہیں۔ 

طاقت کا یہ حلقہ عین موقع پر میڈیا کے راستے سے آتا ہے اور موروثیت پر سوال اٹھا کر غائب ہو جاتا ہے۔ معصوم روحوں نے اس سوال کا ابھی ٹھیک سے اچار ڈالا نہیں ہوتا کہ طاقت کی نرسری سے توپچی نکل کر کہتا ہے، مبارک ہو گملے میں نئی جماعت اگی ہے۔ اس جماعت کی خصوصیت کُل ملا کر یہ ہوتی ہے کہ اس کا سرغنہ کسی معلوم وراثتی سلسلے سے نہیں آیا ہوتا۔

 یہ ابھی رات کے آخری پہر غیب کے پردے پھاڑ کے نازل ہوا ہوتا ہے۔ خدا جانے وہ ایسا کیا پڑھ کے پھونکتے ہیں کہ ہم یہ بھی دیکھنے سے عاجز ہو جاتے ہیں کہ اس جماعت میں تو انہی اٹھارہ خاندانوں کے وہی بے روزگار ابنِ بے روزگار بھرتی کیے گئے ہیں، جن کے پاس حلقہ ہوتا ہے نہ ووٹ ہوتا ہے۔ یہ اچھی کوکھ کی پیداوار ہوتے ہیں اس لیے اپنا رزق نسبتا زیادہ لاتے ہیں۔ 

ٹھیک ہے، مسلم لیگ ایک موروثی جماعت ہوگی مگر کیا اس سوال کا جواب مسلم لیگ قاف بنتا ہے؟ ہمیں غیب سے آنے والی صدائیں بتاتی تھیں کہ جنرل مشرف نے اپنے دور میں کبھی اپنے بچوں کو نہیں نوازہ۔ بہت خوب، لیکن جب وہ توے سے اتری ہوئی گرما گرم مسلم لیگ لے کر ووٹ مانگنے آئے تو کیوں نکل کے نہ آئے پھر تیرے شہر کے لوگ؟

یہاں ایک شیخ رشید بھی تو ہیں۔ دھیلے کی کرپشن کی اور نہ کبھی ملک کے خلاف سوچا۔ والد سیاست دان نہیں تھے اور کوئی وارث وہ چھوڑ کے نہیں جا رہے۔ ویسٹ کوٹ کی جیب میں ایک مسلم لیگ وہ بھی لیے پھرتے ہیں، مگر یتیمی کا یہ عالم کیوں رہا کہ بلاول بھٹو سے ووٹوں کی خیرات مانگنے پہنچ گئے؟

اختر مینگل اور حاصل بزنجو باپ کے وارث بنے ہوں گے، مگر اس کا متبادل آپ کے پاس کیا ہے،باپ پارٹی؟ مصطفی کمال شکل کے بھی اچھے ہوں گے عقل کے بھی پورے ہوں گے۔ سوچنا چاہیے کہ گزشتہ انتخابات میں غیبی مدد کے باوجود انہیں ووٹ کیوں نہیں ملا؟

ممتاز بھٹو بے نظیر بھٹو سے زیادہ ذہین ہوں گے، مگر مٹھی میں عوامی اجازت نامہ نہیں ہے تو اب کیا کریں؟ مولانا فضل الرحمان کو وراثت کا طعنہ مارنے والے مولانا سمیع الحق کو ووٹ دینے کیوں نہیں نکلے؟ اسفندیار ولی خان کُل صلاحیت وراثت تھی تو پھر قوم کو مشرف کی چھتر چھایا میں الگ جماعت بنانے والے اجمل خٹک کے لیے نکلنے سے کس نے روکا تھا؟ جماعت اسلامی اس ملک میں واحد ایک جماعت ہے، جسے آپ موروثیت سے پاک صاف کہہ سکتے ہیں۔ بسم اللہ پڑھیے، ووٹ دیجیے، کیا شیطان مردود آپ کو روک رہا ہے؟

آپ یقینا کہہ سکتے ہیں کہ تحریکِ انصاف وہ جماعت ہے، جس کے بانی مبانی کسی گدی کے وارث بن کر نہیں آئے۔ آپ کہتے ہیں تو یہ بات ہم درست مان لیتے ہیں۔ مگر کبھی غور سے دیکھیے گا کہ تحریک انصاف کو اپنی کشتی سے باری باری وہ سارے بانی، وفادار، جانثار، پڑھے لکھے، ذہین، دانش مند اور غیر روایتی سیاست دان اتارنے کیوں پڑے۔ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ فتحِ مبین کی ضمانت کے لیے تحریک انصاف کے پاس وہی لاوارث بھجوائے گئے جو جنرل ایوب خان کے عہد سے آج تک غیر جمہوری میراث اٹھائے ایک تسلسل میں چلے آرہے ہیں؟

 یہ وہی اٹھارہ خاندان نہیں ہیں، جو بھٹو کے خلاف نکلے تھے، جو بی بی کے خلاف آئے تھے، جو میاں صاحب کے مقابل ابھی کل ہی لائے گئے تھے۔ کیا تحریکِ انصاف کے ساتھ ہونے والے اس کھلواڑ کے ذمہ دار بلاول بھٹو، مریم نواز، محمود خان اچکزئی، اسفندیار ولی خان اور مولانا فضل الرحمان ہیں؟ آپ پی ٹی آئی کو ایک طرف کھڑا کر دیجیے، دوسری طرف عمران خان کو بٹھا دیجیے۔ کارکن سے پوچھیے کہ ووٹ کس کو دینا ہے؟ کیا وہ عمران خان کو کسی بھی قیمت پر نظر انداز کر سکتے ہیں؟ اگر مثال کو سمجھنے میں دقت ہے تو آنکھیں بند کیجیے اور عمران خان کے بغیر پی ٹی آئی کا تصور کر لیجیے۔ ایسے میں ہم پھر منہ بھر کے عوام کو گالی دے دیتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ عوام آخر ہیں کون؟ ہم ہی تو ہیں۔

یہاں معاملہ موروثیت کا نہیں ہے۔ یہاں معاملہ بے وقت کی راگنی اور طاقت کی بدنیتی کا ہے۔ طاقت کو کسی اصول سے غرض نہیں ہے تو شہری کو اپنے اختیار کے علاوہ کسی چیز کی پرواہ نہیں ہونی چاہیے۔ پوچھا جاتا ہے، سیاست دانوں نے نوے کی دہائی میں طاقت سے پیسے کیوں لیے۔ یہ سوال درست ہو سکتا ہے اگر طاقت سے بھی پوچھ لیا جائے کہ آپ نے کیوں دیے اور کہاں سے دیے؟

کہہ دیا جاتا ہے، سیاست دان جب حکومت میں تھا تو اس نے ڈٹ جانے کی بجائے سمجھوتہ کیوں کیا؟ یہ سوال ٹھیک ہو سکتا ہے اگر طاقت سے پوچھ لیا جائے کہ آپ پارلیمنٹ کا گھیراو کرنے والے جھتوں میں ہزار ہزار کی گڈیاں کیوں بانٹتے ہیں۔ فرما دیا جاتا ہے، سیاست دان باہر کیوں اور کیسے آیا؟ یہ سوال اچھا ہو سکتا تھا اگر آل اولاد سمیت جیل جانے والے سیاست دانوں پر پھر وراثت کا سوال نہ اٹھایا گیا ہوتا۔

بھائی میرے! سیاست کی دنیا میں اچھے برے کا فیصلہ تو اس بات سے ہو گا کہ عوامی رائے کے ساتھ کیا سلوک ہو گا؟ آپ کی تجویز بہت اچھی ہو گی،  لیکن رائے دہی کا حق چھیننے کے لیے اگر عوام کو جھانسہ دیا جا رہا ہے تو یہ تجویز بالکل غلط ہے۔ دیکھیے، ترکی میں صدارتی نظام آیا تاکہ عوام کو اختیار لوٹایا جا سکے۔ پاکستان میں صدارتی نظام کی تجویز دی جاتی ہے تاکہ عوام کا اختیار چھینا جا سکے۔ بتلائیے کیا کریں؟ یہی معاملہ موروثیت کا ہے۔ سیاسی وراثت بھی کوئی سیاسی بداخلاقی ہوتی ہو گی مگر ایسی بداخلاقی تو پھر بھی نہیں ہے کہ اس کی بنیاد پر ووٹ کی حجت ختم کردی جائے۔

پہلے یہ سوال حل کر لیا جائے کہ فیصلے کا اختیار کس کو حاصل ہو گا، وراثت کی بحث بھی ایک دن ہو ہی جائے گی۔ فی الحال تو یہ ہے کہ ووٹ کی پرچی کسی ولی وارث کے ہاتھ میں کیوں نہ ہو، توپ کو اُس پر فضیلت نہیں دی جا سکتی۔ بندوق کسی دامنِ پاک میں لپٹی ہوئی کیوں نہ ہو، اسے دلیل نہیں مانا جا سکتا۔

(بشکریہ ڈی ڈبلیو اردو)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ادارے کا تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں

Comments are closed.