زینب برکت قومی چمپئن،18گولڈمیڈلزاپنے نام کئے

ثاقب لقمان قریشی

خصوصی افراد کے مقابلوں میں 18میڈل جیتنے والی باہمت زینب برکت نے لاک ڈاون میں بھی فارغ گھر بیٹھنا پسند نہ کیا اور جب میدان اور شہر بند تھے تو زینب برکت نے ومیکس کے نام سے بوتیک کھول لیا۔زینب 9ماہ کی تھی جب پولیو نے خطرناک حملہ کیا ۔ معصوم زینب کی کمر وقت کے ساتھ ٹیڑی ہونے لگی تو زندگی کو شدید خطرہ ہونے کے باوجود والدین اور اس کے بھائیوں نے آپریشن کرایا۔ کمر میں لوہے کاراڈ ڈالا گیا۔۔ ایک سال تک زندگی معمول پر رہی لیکن پھر ایک موٹر سائیکل حادثہ نے کمر کا راڈ بھی توڑ دیا۔۔ یکے بعد دیگر ے زینب برکت کے مزید دو آپریشنز ہوئے۔۔ اس باہمت لڑکی نے اس صورت حال کو حوادث سمجھ کر تمام مشکلات کا جانفشانی سے مقابلہ کیا۔۔

یہ عزم و ہمت ہی تھی جس نے کئی ذہنی وجسمانی امتحانوں سے گزر کر زینب برکت انٹرنیشنل پیرا ٹیبل ٹینس پلیئر بنا دیا ۔۔ نیشنل پیرا ٹیبل ٹینس چیمپئن کا اعزاز حاصل کیا۔پشاور سے تعلق رکھنے والی زینب برکت بیچلر ڈگری کی حامل ہیں۔۔ ان دنوں زینب برکت فرینڈز آف پیرا پلیجکس جو کہ ایک تنظیم ہے اس میں رضاکارانہ خواتین کو آرڈینیٹر کے طور پر فرائض سر انجام دے رہی ہیں۔پیرا پلیجک سینٹر پشاور میں خواتین کی سپورٹس کنسلٹنٹ ہے اور ٹویوٹا انڑس موٹرز کی اسپورٹس ایمبیسڈر بھی ہیں ۔

زینب برکت جیتے گئے میڈلز کے ساتھ

جدوجہد کی اس دوڑ میں جو اعزازات زینب برکت کا مقدر بنے ان میں تیسرے خیبر سٹار پیس ایوارڈ 2015، ہم جوان یوتھ ایوارڈ 2016، خواتین کے عالمی دن پر ریکونکینشن ایوارڈ 2017، فخر پشاور ایوارڈ 2017، چوتھے خیبر سٹار پیس ایوارڈ 2017، خدیجتہ الکبٰرا ایوارڈ 2018، سیکوز ہنار 4۔0 ریمپ واک ونر ایوارڈ 2018 اور افغان ٹی وی ایوارڈ شامل ہے۔۔ اسکے علاوہ ملکی سطح پر ٹیبل ٹینس کے خصوصی مقابلوں میں 18 گولڈ میڈل اور 16 ونر ٹرافیز اپنے نام کر چکی ہیں۔

زینب برکت نے،،زمینی حقائق ڈاٹ کام،، کو بتایا کہ اس کے والد انجینئر تھے۔ وہ چار بھائیوں کی اکلوتی بہن ہیں۔۔ بڑے بھائی مقامی تاجر ہیں، دوسرے نمبر کے بھائی فوڈ کمپنی میں مارکیٹنگ مینیجر ہیں، تیسرے نمبر کے بھائی بائیک انجینئر ہیں جبکہ سب سے چھوٹے بھائی پاکستان ریلوے سے منسلک ہیں۔

آپریشنز کے باعث زینب زمین پر نہیں بیٹھ سکتیں

زینب کا کہنا ہے کہ ابھی 20 سال کی ہوئیں تھیں کہ انکے والد کا انتقال ہوگیا۔۔متعدد آپریشنز کا یہ نقصان ہوا کہ اب میں زمین پر نہیں بیٹھ سکتی، اونچی گاڑی میں سفر نہیں کر سکتیں، زیادہ دیر ویل چیئر پر نہیں بیٹھ سکتیں اور کھیل کے دوران بھی تھکاوٹ کا شکار ہو جاتی ہیں۔
سکول میں لیٹ داخلہ بھی کروایا گیا۔ شروع کے دنوں میں خود کو نارمل بچوں میں کمتر محسوس کرتی تھیں۔ سکول میں سب سے بڑا مسئلہ واش روم جانے کا ہوا کرتا تھا۔ زینب کی کزن نے یہ ذمہ داری نبھائی۔

نویں جماعت کے پرچوں میں کمرہ امتحان پہلی منزل پر تھا۔ گھر والوں نے درخواست بھی کی کہ زینب کے پرچے نیچے منتقل کر دیئے جائیں لیکن انتظامیہ نہیں مانی۔ بھائی انھیں اٹھا کر اوپر والی منزل پر لے جایا کرتے تھے۔ لڑکیوں کے کیمپس میں مرد کی موجودگی پر لڑکیوں کے والدین نے ناراضگی کا اظہار کیا۔ جس کی وجہ سے زینب کو نہایت شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔

رسائی کے مسائل کی وجہ سے ریگولر تعلیم جاری نہیں رکھ سکیں۔ ایف اے کا امتحان پرائیوٹ پاس کیا جبکہ بی-اے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے فاصلاتی تعلیمی نظام سے مکمل کیا۔
زینب بچپن سے ہی کھیلوں کی شوقین تھیں۔ خاندان کی سپورٹ، اعتماد میں بھر پور اضافے کا سبب بنی۔ کھیل تو بہت سے تھے لیکن ٹیبل ٹینس میں دلچسپی اس لئے بڑھنے لگی کیونکہ اس میں حرکت اور جسمانی مشقت دوسرے کھلیوں کی نسبت کم تھی۔

اس وقت زینب ٹی-3 کیٹیگری کی پیرا کھلاڈی ہیں۔ اب تک 10 مرتبہ قومی چیمپین شپ، 30 مرتبہ صوبائی جبکہ ڈسٹرکٹ کی سطح پر متعدد بار چیمپین شپ اپنے نام کرچکی ہیں۔ زینب کو ٹیوٹا انڈس موٹرز نے 2021 میں جاپان میں ہونے والے پیرا لمپکس میگا ایونٹ کی تیاری کے لیئے چائنہ بھیجا تھا۔ جسکی زینب پوری طرح تیاری کر کے واپس آئی ہیں۔ اور ٹویوٹا انڈس موٹرز زینب کو 2021 ٹوکیو جاپان میں ہونے والے پیرا لمپکس میگا ایونٹ میں بھی پورا اسپانسر کرے گی۔

باہمت زینب برکت کا کہنا ہے کہ وہ فٹ رہنے کی ہر ممکن کوشش کرتی ہیں۔ اپنی خوراک کا خاص خیال رکھتی ہیں۔ تلی ہوئی اور میٹھی چیزوں سے پرہیز کرتی ہیں۔ باقاعدگی سے ورزش کرتی ہیں، روزانہ پریکٹس کیلئے قیوم سپورٹ کمپلیکس اور حیات آباد سپورٹس کمپلیکس جاتی ہیں جہاں ابصار علی اور الطاف الرحمٰان بین الاقوامی کھلاڑی ہیں اور زینب کو کوچنگ دیتے ہیں۔


خصوصی کھلاڑیوں کو کھلاڑی تسلیم نہیں کیا جاتا۔

زینب اس بات کا گلا کرتی ہیں کہ وطن عزیز میں خصوصی کھیلوں کو کھیل اور خصوصی کھلاڑیوں کو کھلاڑی تسلیم نہیں کیا جاتا۔ حالانکہ کھیل خصوصی افراد میں صحت مند سرگرمیوں کے فروغ کے ساتھ ساتھ روزگار کی فراہمی کا ذریعہ بھی ثابت ہوسکتے ہیں۔

زینب سمجھتی ہیں کہ کھیلوں سے نوجوان نسل میں صحت مند سرگرمیوں کو فروغ دیا جاسکتا ہے۔ جس سے تشدد اور شدت پسندی کے جذبات میں نمایاں کمی لائی جاسکتی ہے۔ کھیلوں سے جڑی صنعتیں فروغ پاسکتی ہیں۔ بین الاقوامی مقابلوں کے انعقاد سے ملکی آمدن میں اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ سیاحت فروغ پاسکتی ہے اور سب سے بڑھ کر ملک کا روشن خیال چہرہ دنیا کے سامنے لایا جاسکتا ہے۔

جن خصوصی افراد کا کھیلوں کی طرف رجحان نہیں انھیں زینب یہ مشورہ دینا چاہتی ہیں کہ وہ ورزش کو اپنا معمول بنا لیں اور کسی نہ کسی طرح اپنے آپ کو جسمانی سرگرمیوں میں مصروف رکھنے کی کوشش کریں۔بیڈمنٹن، ٹیبل ٹینس اور ویل چیئر کرکٹ وطن عزیز میں خصوصی افراد کے پسندیدہ ترین کھیل شمار کیئے جاتے ہیں۔ کھیل کا انتخاب خصوصی فرد کو اپنی جسمانی صحت اور ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق کرنا چاہیے۔

زینب کی خواہش ہے کہ سکول اور کالج کی سطح پر خصوصی کھیلوں کی حوصلہ افزائی کی جائے، کھیلوں کے نئے میدان اور کلبز بنائے جائیں، نئے کھیل متعارف کروائے جائیں اور اگر حکومت اس سارے عمل کی سرپرستی کرے میڈیا بھر پور تشہیر کرے تو خصوصی افراد میں کھیلوں کے رجحان کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔

ٹرانسپورٹ کا مسئلہ خصوصی افراد کے اہم ترین مسائل میں سے ایک ہے۔ زینب نے اس مشکل کا حل اسطرح نکالا کہ گاڑی چلانا سیکھ لی ہے۔۔۔ جس نے زندگی کو مزید سہل بنا دیا ہے۔ اب انھیں آنے جانے کیلئے کسی کی مدد اور سہارے کی ضرورت نہیں ہوتی۔

والدین بو ڑھے ہوں تو گھر میں توجہ نہیں ملتی

شادی کے بارے میں زینب کا کہنا ہے کہ شادی ہر انسان کا بنیادی انسانی حق ہے۔ خصوصی افراد کو شادی کا اتنا ہی حق حاصل ہے جتنا کہ ایک عام شخص کو حاصل ہے۔ والدین کے بزرگ ہو جانے اور بہن بھائیوں کی شادیوں کے بعد خصوصی افراد کو اتنی توجہ نہیں مل پاتی جس کے وہ حقدار ہوتے ہیں۔ ایسے میں جیون ساتھی کے ساتھ مل کر ایک دوسرے کے مسائل کو حل کیا جاسکتا ہے اور ایک دوسرے کے دکھ درد بانٹے جاسکتے ہیں۔

زینب کو کھانا پکانا آتا ہے لیکن سپورٹس کی وجہ سے کوکنگ کو زیادہ ٹائم نہیں دے پاتیں۔ کھانے میں ہر چیز پسند ہے لیکن بریانی اور شامی کباب پسندیدہ ترین ڈشز ہیں۔۔کھیل، نوکری اور پڑھائی کے بعد انھیں فارغ وقت کم ہی میسر آتا ہے۔ فارغ وقت میں انٹرنیٹ استعمال کرنا، دوستوں سے ملنا اور گھومنا پسند کرتی ہیں۔

لاک ڈاؤن کے دنوں میں اپنا بوتیک کھولنے کے حوالے سے زینب برکت کہتی ہیں اس بوتیک کی خاص بات یہ ہے کہ سلائی کا کام خصوصی اور بے سہارا خواتین سے لیا جاتا ہے۔ جس کا مقصد خصوصی اور بے سہارا عورتوں کی مدد کرنا ہے۔ اس عمل سے ان خواتین کو ذریعہ معاش اور زینب کو ڈھیروں دعائیں مل جاتی ہیں۔

زینب کہتی ہیں اگر وہ نارمل ہوتی تو شائد اتنی کامیاب نہ ہوتیں۔ خصوصیت کو اپنی شناخت سمجھتے ہوئے میں نے آزمائشوں سے لڑنا شروع کیا اور پھر کامیابی میرا مقدر بنتی گئی ۔۔ خصوصی خواتین کیلئے زینب کا پیغام ہے کہ اگر انسان اپنی کمی پر بھر پور محنت کرے تو ایک دن یہی کمی انسان کی سب سے بڑی طاقت بن جاتی ہے۔

Comments are closed.