غریب کو "اوقات” میں رکھا جاہے؟


شمشاد مانگٹ

نیب نے پنجاب میں اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز کو منی لانڈرنگ سے متعلق طلب کیا مگر وہ پیش نہیں ہوئے جس پر ان کی گرفتاری کے وارنٹ نکالے گئے لیکن جمعہ کو حمزہ شہباز شریف کو گرفتار کرنے کیلئے جانے والی نیب اہلکاروں کی ٹیم کو نہ صرف منہ کی کھانا پڑی بلکہ کئی ایک کو منہ پر بھی کھانا پڑی اور نیب کے اہلکار ملزم کو گرفتار کرنے کی بجائے بے آبرو ہوکر واپس لوٹ گئے۔

ہفتہ کی صبح نیب کی ٹیم نے حمزہ شہباز شریف کی گرفتاری کا معرکہ سر کرنے کی دوبارہ صف بندی کی اور ان کی رہائش گاہ پر گئے لیکن اس بار جمعتہ المبارک سے بھی زیادہ ری ایکشن دیکھنے کو ملا اور اس بار بھی نیب کے اہلکاروں کو شدید بدتمیزی کا سامنا کرنا پڑا۔ نیب کے اہلکاروں نے گھر کے اندر کودنے کیلئے سیڑھی تو منگوائی لیکن اندر کودنے کی بجائے واپس باہر ہی اتر آئے۔

اس دوران حمزہ شہباز شریف کے گھر کے باہر کارکنوں اور پولیس اہلکاروں کے درمیان چپقلش اور ہاتھا پائی کے مناظر چلتے رہے۔ گھر کے اندر حمزہ شہباز شریف نیب سے خوف زدہ بیٹھے ہوئے تھے اور ٹیلی ویژن پر کارکنوں کی مزاحمت سے خوش بھی ہو رہے تھے جبکہ گھر کے باہر نیب کے اہلکار دل ہی دل میں ”باعزت“ واپسی کیلئے دعائیں کررہے تھے۔

ادھر چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے اپنی چھٹی کی پرواہ نہ کرتے ہوئے عدالت لگائی اور حمزہ شہبا زشریف کو دو دن کی عبوری ضمانت دے کر ایک طرف حمزہ شہباز شریف کا خوف دور کیا اور دوسری طرف نیب اہلکاروں کی باعزت واپسی کا بھی بندوبست کرکے نیب کی دعائیں لیں۔

حمزہ شہبا زشریف کی گرفتاری کے حوالے سے جو صورتحال پید اہوئی ہے اس سے یہ بات تو ثابت ہوگئی ہے کہ ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے بالکل ”بودے“ ہوچکے ہیں۔

نیب ہو یا پھر پولیس سب کے سب عام آدمی کیلئے بہت ہی م¶ثر اور کاری ہیں لیکن ان اداروں کیلئے ہر طاقتور ایک خوفناک خواب کی طرح ہے۔ نیب کے جن لوگوں نے شہباز شریف کو گرفتار کیا تھا اب یقینی طور پر انہیں اس وقت سے خوف آتا ہو گا جب میاں شہباز شریف دوبارہ اقتدار میں آگئے۔
شریف برادران کو ملنے والے پے درپے ریلیف سے عام آدمی کے اندر شدید احساس کمتری نے جنم لیا ہے۔

نیب کی تاریخ میں آج تک کسی بھی ملزم کی سزا معطل کرکے اسے ضمانت پر رہا نہیں کیا گیا لیکن میاں نواز شریف کیلئے ملک کی اعلیٰ عدالتوں نے یہ ”فریضہ“ دوبار سر انجام دیا ہے۔ اسی طرح عدالتوں نے میاں شہباز شریف کو ریلیف دے کر یہ سلسلہ مزید آگے بڑھایا ہے اور حیرت کی بات یہ ہے کہ معزز عدالتیں ”ریلیفی“ فیصلوں میں یہ بھی لکھ دیتی ہیں کہ ان فیصلوں کو عدالت میں مثال بنا کر پیش نہیں کیا جائے گا۔

گزشتہ روز لاہور میں حمزہ شہباز شریف کی گرفتاری میں عدالتوں نے انصاف کی فراہمی میں بڑے لوگوں کو بروقت ریلیف دے کر عام آدمی کو ایک بار پھر سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ وہ اپنے حقوق کا تحفظ مانگنے کس عدالت کے پاس جائیں؟۔ ملک بھرکی عدالتوں میں زیر التوا مقدمات کی تعداد اس وقت لاکھوں میں ہے جبکہ اعلیٰ عدالتوں میں بھی لاکھوں کیس انصاف کے منتظر ہیں۔

نیب‘ پولیس اور ایف آئی اے معمولی جرائم کرنے والے عام شہریوں کو مار مار کر ان کا بھرکس نکال دیتے ہیں اور اگر ملزم گرفتار نہ ہو تو اس کے بے گناہ والد اور بھائیوں کو عبرت کا نشان بنا دیا جاتا ہے۔ مگر حمزہ شہباز شریف چونکہ ایک ”سیاسی نگر“ ہے اس لئے ہمارا ہر طرح کا قانون اس کے سامنے سرنگوں ہونے کو تیار رہتا ہے۔

شریف فیملی پر عدالتوں کی مہربانیوں کا یہ سلسلہ کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ جب محترمہ بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کو سزا سنانے کیلئے کئے گئے ٹیلی فونز کی ٹیپس پکڑی گئی تھیں اس وقت بھی رگڑا ججوں کو لگا تھا اور شریف برادران مکمل طور پر محفوظ رہے تھے۔ سپریم کورٹ حملہ کیس میں بھی طارق عزیز جیسے سینکڑوں کارکنوں کا سیاسی مستقبل تاریک ہوگیا تھا لیکن شریف برادران کی طرف کسی نے آنکھ اٹھا کر دیکھا بھی نہیں تھا۔

سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے آٹھ سالہ پرانے فیصلے میں میاں شریف کی تازہ تازہ درخواست لے کر انہیں بے گناہ قرار دے دیا تھا۔ عدالتی مہربانیوں کا یہ سلسلہ بہت طویل ہے اور ابھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ شریف برادران پر ایک اور مہربانی ہے لیکن اب بھی وقت ہے کہ پارلیمنٹ کے ذریعے قانون سازی کرکے قانون کی عملداری کو تین درجات میں تقسیم کردیا جائے۔

اول درجے میں سیاسی پارٹیوں کے سربراہان اور دیگر اداروں کو طاقتور لوگوں کو شامل کردیا جائے جبکہ دوسرے درجے کے لوگوں میں دولت مندوں کو رکھا جائے اور انہیں یہ سہولت تحریری شکل میں دے دی جائے کہ وہ ہر جرم کی سزا پر معقول رقم ادا کرکے اپنی ”خلاصی“ کرواسکتے ہیں اور تیسرے درجے میں غریب غرباءاور مزدوروں کو رکھا جائے اور انہیں بتا دیا جائے کہ کسی بھی جرم کی شکل میں قانون ان پر قہر بن کر ٹوٹ پڑے گا ۔

اور یہ کہ انصاف کی جلد فراہمی کیلئے انہیں درخواستیں دینے کی بھی سہولت نہیں ہوگی۔ اگر پارلیمنٹ یہ قانون بنا دے یقین کریں غریب لوگوں کو اپنے حقوق کی پامالی کا قطعی دکھ اور افسوس نہیں ہوگا۔ ویسے بھی تو ہماری پارلیمنٹ اراکین کی مراعات کیلئے قانون سازی کرتی ہے تو غریب عوام اپنے لیڈروں کیلئے نعرے مارتے ہیں۔ مذکورہ بالا مجوزہ قانون سے غریبوں کو اپنی ”اوقات“ میں رہنے کی عادت ہوجائے گی اور یہی غریب کی ”اوقات“ہے ۔

Comments are closed.