طالبان پر حملوں کیلئے پاکستانی ائر بیس ملنے کا امکان نہیں، امریکی اخبار

فوٹو: فائل


اسلام آباد( زمینی حقائق ڈاٹ کام)امریکی اخبار کی رپورٹ میں کہا گیاہے کہ اسلام آباد میں برسراقتدار حکومت کی طرف سے پاکستان میں کوئی بھی ائر بیس طالبان کے خلاف امریکی حملوں کیلئے استعمال کرنے کے کسی معاہدہ پردستخط ہونے کا امکان نہیں ہے۔

نیو یارک ٹائمز کی رپورٹ میں گزشتہ ماہ پارلیمنٹ میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی تقریر کا بھی حوالہ دے کر کہا گیا ہے کہ پاکستانی وزیر خارجہ واضح کر چکے ہیں کہ وزیر اعظم عمران خان کے اقتدار میں رہنے تک یہاں کسی امریکی بیس کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ امریکی انٹیلی جنس ایجنسی ‘سی آئی اے’ نے اس سے قبل شدت پسندوں کے خلاف ڈرون حملے شروع کرنے کے لیے پاکستان میں ایک بیس کا استعمال کیا تھا، تاہم ‘2011 میں پاک امریکہ تعلقات خراب ہونے پر انہیں اس سہولت سے نکال دیا گیا تھا۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ کچھ امریکی عہدیداروں نے اخبار کو بتایا کہ پاکستان کے ساتھ مذاکرات ابھی تعطل کا شکار ہوچکے ہیں اور معاہدے کا امکان نہیں ہے تاہم دیگر نے یہ بھی کہا ہے کہ یہ آپشن اب بھی ٹیبل پر ہے۔

رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیاہے کہ سی آئی اے کے ڈائریکٹر ولیم جے برنز نے حال ہی میں پاکستانی فوج کے سربراہ اور انٹر سروسز انٹلی جنس کے ڈائریکٹوریٹ کے سربراہ سے ملاقات کے لیے اسلام آباد کا غیر اعلانیہ دورہ کیا تھا تاہم انھوں نے ائر بیس کا معاملا نہیں اٹھایا۔

دوسری طرف امریکی وزیر دفاع لائیڈ جے آسٹن کی پاکستانی فوج کے سربراہ سے افغانستان میں مستقبل میں امریکی آپریشنز کے لیے ان کی مدد حاصل کرنے کے بارے میں ملاقاتیں ہوتی رہی ہیں ، تاہم رپورٹ میں یہاں سے بھی گرین سگنل ملنے کا دعویٰ نہیں کیاگیا۔

اس رپورٹ میں کہا گیا کہ ولیم جے برنز نے اپنے دورہ پاکستان کے دوران صورتحال کاادراک کرتے ہوے ائر بیس کا مسئلہ نہیں اٹھایا کیونکہ اس دورے میں انسداد دہشت گردی کے وسیع تعاون پر توجہ دی گئی تھی لیکن ‘امریکی وزیر دفاع کے کچھ مباحثے براہ راست رہے ہیں۔

امریکی اخبار کی رپورٹ میں نشاندہی کی گئی کہ سی آئی اے نے بلوچستان میں شمسی ایئربیس کا استعمال 2008 میں سیکڑوں ڈرون حملے کرنے کے لیے کیا تھا، ان حملوں کا مرکز بنیادی طور پر صرف پاکستان کے پہاڑی قبائلی علاقوں میں القاعدہ کے مشتبہ کارکن تھے انہوں نے افغان سرحد عبور بھی کی تھی۔

Comments are closed.