صیاد خان 12 سال بستر پر رہ کر بھی عالمی توجہ حاصل کرگیا

ثاقب لقمان قریشی

زمینی حقائق ڈاٹ کام، کے ساتھ آج مردان سےباہمت شخص صیاد خان موجود ہیں، شاید ان جیسوں کے بارے میں کیاگیا ہے کہ کامیابی، تکالیف اور مشکلات کا بہادری سے مقابلہ کرنے والوں کے قدم چومتی ہے.

نام: صیاد خان ضلع مردان کی تحصیل تخت بھائی، پی-او بکس ہتھیانو کے رہائشی ہیں اور ادارہ صیاد ویلفیئر فاؤنڈیشن سے منسلک ہیں.

خاندانی پس منظر:
والد صاحب کاشت کار تھے۔ خاندان تین بھائیوں اور ایک بہن پر مشتمل ہے۔ صیاد کے علاوہ سب تعلیم یافتہ ہیں اور سرکاری ملازم ہیں۔

معذوری کی وجوہات

نو ماہ کی عمر میں گردن توڑ بخار ہوا۔ جس کی وجہ سے پورا جسم بے سود ہو گیا۔ لوگ اسے پولیو کا نام دیتے ہیں۔ لیکن صیاد اپنی معذوری کی علامات کو مسکولر ڈسٹرافی قرار دیتے ہیں۔ والدین نے اپنی استطاعت سے بڑھ کر علاج کی ہر ممکن کوشش کی لیکن مرض کی صحیح تشخیص نہ ہونے کی وجہ سے بہتری نہ آسکی۔ صیاد خان کے ساتھ،، زمینی حقائق ڈاٹ کام ،، کی نشست ہوئی جس کا احوال کچھ یوں ہے.

سوال: تعلیم کیوں نہیں مکمل کر پائے؟

تعلیم ہی ایسا ہتھیار تھا جس کی مدد سے صیاد معذوری کے ساتھ پروقار زندگی گزار سکتے تھے۔ اسی غرض سے والدین انھیں مقامی سکولوں اور مدرسوں میں داخلے کی خاطر لے کر جاتے رہے لیکن انکی شدید معذوری کو دیکھتے ہوئے انھیں کہیں داخلہ نہ مل سکا۔

صیاد ریڈیو، ٹی-وی اور اخبارات کو اپنا استاد مانتے ہیں۔ جب انکے کیلئے تعلیم کے دروازے بند کر دیئے گئے تو انھوں نے ریڈیو، ٹی-وی کے پروگرامز کو سن کر اور اخبارات کا مطالعہ کر کے اپنی علم کی پیاس کو بجھانا شروع کر دیا۔

سوال: زندگی کے بارہ سال بستر پر کیسے گزار دیئے؟

صیاد کہتے ہیں کہ انھوں نے بچپن کے بارہ سال چارپائی پر گزارے ہیں۔ گھر والے انکی چارپائی گھر سے باہر رکھ دیا کرتے تھے۔ بچوں کو کھیلتا دیکھ کر یہ بہت خوش ہوتے اور انکی توجہ حاصل کرنے کیلئے انکے کھیلوں میں دلچسپی لینے کی کوشش کرتے۔ ہاتھوں اور پیروں کے کام نہ کرنے کے باوجود یہ کھیل میں اپنا حصہ ڈالنے کی کوشش ضرور کرتے تھے۔
شدید معذوری بھی انکے حوصلے پست نہیں کر سکی۔ دل میں کچھ کرنے کا جذبہ تھا جو مایوسی کی حالت سے نکلنے میں مدد فراہم کرتا تھا۔

سوال: موبائل فون سے مختلف محکموں کو کالز کیوں کیا کرتے تھے؟

جواب ملا کہ گھر میں پہلی بار جب موبائل فون آیا تو دل میں اسکا استعمال سیکھنے کا شوق پیدا ہوا۔ اسے ہاتھ میں لے لیتا مختلف بٹن دباتا اور ردعمل کا جائزہ لیتا رہتا تھا ۔ کچھ نہ پتہ ہونے کے باوجود مختلف اداروں کو فون کرنا اور معلومات اکٹھی کرنے کا سلسلہ شروع کردیا۔ روابط بڑھانے کے اس سلسلے نے اسلام آباد کے ایک شخص سے دوستی کر دی جنھوں نے مجھ سے ملنے کا وعدہ کیا۔ اس شخص کے ملنے نہ آنے پر شدید مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔

سوال: وراثت میں ملنے والی جائیداد کو سوشل ورک کے لیئے کیوں وقف کر دیا؟

اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں اور ذیادتیوں نے میرے اندر خدمت خلق کا جذبہ پیدا کر دیا۔ صیاد کہتے ہیں انھیں وراثت میں چار کنال کا زمین کا ٹکڑا ملا وہ بھی انھوں نے سوشل ورک کیلئے مختص کر دیا۔

سوال: لڑکیوں کا سکول بنانے کا خیال کیوں دل میں آیا؟

صیاد انسانیت کی خدمت کرنا چاہتے تھے۔ اپنے علاقے کی پسماندگی اور محرومیوں کو دیکھ کر انکا دل خون کے آنسوں روتا تھا۔ لڑکیوں کی تعلیم کے راستے میں ایک طرف علاقے کے رسوم و رواج رکاوٹ تھے تو دوسری طرف سکولوں پر دہشتگری کے حملوں نے بچیوں کو گھروں میں قید کر رکھا تھا۔ اس بدترین صورتحال کو دیکھتے ہوئے صیاد نے 2009 میں اپنی زمین پر بچیوں کا سکول کھولا۔

سوال: سکول کا تجربہ کیسا رہا؟ خاندان والے سکول بند کرنے کا مشورہ کیوں دیتے تھے؟

صیاد اور انکے خاندان کی شرافت کو دیکھتے ہوئے علاقے کے بہت سارے لوگوں نے اپنی بچیوں کا داخلہ انکے سکول میں کروا دیا۔ انھوں نے بچیوں کی تعلیم کی اہمیت کے حوالے سے مختلف اخبارات میں کالم بھی چھپوائے۔ انھیں لکھنا نہیں آتا تھا اسلیئے یہ لکھاری کو اپنے پاس بٹھا لیا کرتے تھے۔ صیاد بولتے رہتے تھے اور لکھاری انکی باتوں کو الفاظ کی شکل دے دیا کرتا تھا۔

اس زمانے میں دہشت گرد بچیوں کے سکولوں کو بم دھماکوں سے اڑا دیا کرتے تھے۔ صیاد کے خاندان والے ایک طرف انکے کارنامے سے بہت خوش تھے تو دوسری طرف دہشتگروں کی طرف سے ملنے والی دھمکیوں کی وجہ سے خوفزدہ بھی رہتے تھے۔ صیاد سے متعدد بار سکول بند کرنے کا کہا گیا لیکن یہ ماننے کو تیار نہیں تھے۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ سکول 2013 میں گورنمنٹ نے اپنی تحویل میں لے لیا۔ سکول ابھی بھی کامیابی سے چل رہا ہے۔ اس وقت سکول میں چار سو سے زائد بچیاں زیر تعلیم ہیں۔

سوال: صیاد ویلفیئر آرگنائزیشن کا قیام کب عمل میں آیا؟ آپ بین الاقوامی اداروں کی توجہ حاصل کرنے میں کیسے کامیاب ہوئے؟

انھوں نے بتایاصیاد ویلفیئر آرگنائزیشن کی بنیاد 2007 میں رکھی گئی۔ این-جی-او بنانے کے بعد سب سے بڑا مسلئہ فنڈنگ کا تھا۔ ابتدائی سالوں میں این-جی-او کے اخراجات اپنی جیب سے اٹھایا کرتا تھا ۔ سکول چلانے کے ساتھ ساتھ سوشل ورک بھی کیا کرتے تھا۔ سکول حکومت کی تحویل میں لیئے جانے کے بعد اپنی ساری توجہ سوشل ورک پر مرکوز کر دی۔ این-جی-او کی رجسٹریشن کے بعد اسے بین الاقوامی اداروں کی توجہ ملنا شروع ہوگئی۔

صیاد ویلفیر آرگنائزیشن ہینڈی کیپ انٹرنیشنل، آئی-سی-آر-سی اور جرمنی کی این-جی-اووز کے ساتھ مختلف پراجیکٹس پر کام کر چکی ہے۔ جبکہ ملک کی بڑی این-جی-اووز کے ساتھ کام ہر وقت چلتا رہتا ہے۔

سوال: صیاد ویلفیئر آرگنائزیشن کیا کام کرتی ہے؟

صیاد ویلفیئر آرگنائزیشن آگہی، تعلیم، صحت اور بہبود کے شعبوں میں کام کر رہی ہے۔ ایس-ڈبلیو-او کے پلیٹ فارم سے خصوصی افراد میں ہزاروں کے حساب سے ویل چیئرز، بیساکھیاں، سفید چھڑیاں، سماعت کے آلات وغیرہ تقسیم کیئے جا چکے ہیں۔

ایس-ڈبلیو-او اندرون ملک اور بیرون ملک ہسپتالوں اور بحالی سینٹروں سے ہردم رابطے میں رہتا ہے۔ اگر کسی مریض کا علاج خیبر پختون خواہ میں ممکن ہو تو اس کا رابطہ صوبائی سینٹر سے کروا دیا جاتا ہے۔ اگر معاملہ پیچیدہ نوعیت کا ہو تو ملکی اور غیر ملکی سینٹرز سے مدد طلب کی جاتی ہے۔
خصوصی افراد اور انکے خاندان والوں کی کاؤنسلنگ کی جاتی ہے۔ معذوری کے ساتھ جینے کے طریقے سکھائے جاتے ہیں۔ کامیاب خصوصی افراد کی زندگی کے بارے میں بتایا جاتا ہے۔

خصوصی افراد کے شناختی کارڈ، معذوری سرٹیفکیٹ، سکولوں میں داخلے اور سرکاری اداروں سے سہولیات کے حصول کیلئے ایک ٹیم بنا رکھی ہے۔ جو خصوصی افراد کو رہنمائی فراہم کرتی ہے۔

سوال: کیا ایس-ڈبلیو-او کھیلوں کی بھی حوصلہ افزائی کرتی ہے؟

صیاد کہتے ہیں کہ کھیلوں کی سرگرمیاں صحت اور مثبت رویوں کو فروغ دیتی ہیں۔ ایس-ڈبلیو-او نہ صرف کھیلوں کے فروغ کی بھر پور حوصلہ افزائی کرتی ہے بلکہ ضلعے اور تحصیل کی سطح پر متعدد ٹورنامنٹس بھی منعقد کروا چکی ہے۔ انکی ٹیم 2017 سے قومی اور صوبائی سطح پر ہونے والے کھیلوں کے مقابلوں میں نہ صرف حصہ لے رہی ہے بلکہ بہترین کارگردگی کا مظاہرہ بھی کر رہی ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ انھوں نے خصوصی خواتین کو بھی کھیلوں میں حصہ لینے کا موقع فراہم کیا۔

2019 میں ایبٹ آباد میں ہونے والے آل پاکستان سپیشل گیمز میں صیاد ویافیئر آرگنائزیشن نے آٹھ گولڈ میڈل، تین سلور اور ایک کانسی کا تمغہ اپنے نام کیا۔

سوال: ایس-ڈبلیو-او کا بحالی سینٹر کن مراحل میں ہے؟ اس کو فنڈنگ کون کر رہا ہے؟

بحالی سینٹر کی تعمیر کا کام 2016 میں شروع کیا گیا جو اب اختتامی مراحل میں داخل ہوچکا ہے۔ صیاد بلڈنگ اپنے خرچے سے تعمیر کروا رہے ہیں۔ جب بھی تھوڑے پیسے اکھٹے کر لیتے ہیں کام شروع کروا لیتے ہیں اور جب پیسے ختم ہوجاتے ہیں تو اگلی کمیٹی کا انتظار کرنے لگتے ہیں۔

ایس-ڈبلیو-او جن امور پر کام کر رہی ہے سینٹر کے قیام کے بعد انہی امور میں مزید بہتری لانے کی کوشش کرے گی۔ اپنی ٹیم کو وسعت دینے کی کوشش کرے گی تاکہ ذیادہ سے ذیادہ لوگ مستفید ہوسکیں۔

سوال: فارغ وقت میں کیا کرتے ہیں؟

صیاد کے ایک دوست کا گھر کھیتوں کے نزدیک واقع ہے جس کے آس پاس کوئی دوسرا گھر نہیں۔ فارغ وقت میسر آتے ہی دوست کے گھر کا رخ کر لیتے ہیں۔ پھر دونوں خوب گپیں لگاتے ہیں۔

سوال: کھانے میں کیا پسند کرتے ہیں؟

صیاد نے بتایا کہ وہ دن میں دو مرتبہ کھانا کھاتے ہیں۔ دیسی کھانے پسند کرتے ہیں۔ کھانا خوب مزے لے لے کر کھاتے ہیں۔

سوال: مستقبل میں کیا کرنا چاہتے ہیں؟

مردان کو پاکستان اور پوری دنیا کیلئے رول ماڈل بنانا چاہتے ہیں۔ جہاں کوئی خصوصی بچہ تعلیم سے محروم نہ ہو، سکول، کالج، مسجد، چرچ، مندر، پارکس، سیروتفریح کے مقامات، بلڈنگز، ٹرانسپورٹ وغیرہ ہر جگہ رسائی کے بہترین انتظامات ہوں۔ جہاں صحت اور روزگار کے بہترین مواقع میسر ہوں اور ساری دنیا مردان کے اس ماڈل کو کاپی کرنے کوشش کرے۔

سوال: خصوصی افراد کو کیا پیغام دینا چاہیں گے؟

زندگی کامیابیوں اور ناکامیوں کے مجموعے کا نام ہے۔ جو لوگ مشکلات اور تکالیف کا بہادری سے مقابلہ کرتے ہیں کامیابی ان کے قدم چوم لیتی ہے۔ خصوصی افراد حالات سے سمجھوتہ کرنے کے بجائے ان سے لڑنا سیکھیں۔ ایک دوسرے کے مسائل کو حل کرنے کوشش کریں، ایک دوسرے کا سہارا بن جائیں تو مسائل خود بخود حل ہو جائیں گے۔

Comments are closed.