,جگا ,


چوہدری ثاقب ایوب

جس کے نام سے آج بھی ”جگا ٹیکس“ مشہور ہے۔۔قصور کے قریب موضع برج سنگھ والا میں 02-1901 میں ایک سکھ جاٹ خاندان میں جگت سنگھ نامی بچہ پیدا ہوا جو آگے چل کر ”جگا“ کے نام سے مشہور ہوا۔۔وہ پنجاب کا پہلا ڈاکو تھا جو امیروں سے چھین کر غریبوں میں بانٹ دیتا تھا۔ جگا جٹ کو پنجاب کا ”روبن ہڈ” بھی کہا جاتا ہے۔ اس کے حوالے سے پنجابی کے کئی گیت مشہور ہیں۔

بھتا وصولی کو لاہور میں ایک زمانے میں ”جگا ٹیکس“ کہا جاتا تھا۔ اس کا جگاجٹ سے کوئی تعلق نہیں۔ ”جگا ٹیکس“ کو یہ نام کیوں دیا گیا؟
اس کے متعلق مترجم، ادیب، کہانی نویس اور ماہنامہ اردو ڈائجسٹ کے سابق نائب مدیر محمد اقبال قریشی کی تحقیق ملاحظہ ہو:
”جگا گجر کو لوگ ”جگا بادشاہ“ کہہ کر پکارتے تھے اور لاہور کی ہی نہیں صوبے بھر کی پولیس اس کا نام سن کر کانپ اٹھتی تھی، اسے گرفتار کرنا شیر کے شکار جیسا تھا۔ اندرون شیرانوالہ گیٹ کے قوما قصائی کی جگا گجر گروپ سے خاصا عرصہ دشمنی رہی جس کی بھینٹ دونوں پارٹیوں کے کئی افراد چڑھ گئے اور کئی بار کی جانے والی صلح کی کوششیں بھی ناکام رہیں۔

جگا گجر کی رائج کی ہوئی ”جگا ٹیکس“ کی اصطلاح آج تک مستعمل ہے۔ جگا تھا تو بدمعاش لیکن اس کی یہ خوبی اسے دوسرے غنڈے موالیوں سے ممتاز کرتی تھی کہ اس کے گھر شام کو جو جگا ٹیکس پہنچتا تھا، اس میں غریبوں اور بیواؤں کا بھی حصہ ہوتا تھا۔ اس کے ٹارگٹ امیر اور صنعتکار ہوتے تھے۔ وہ غریبوں سے نہیں چھینتا تھا۔ جگا کے لیے ڈپٹی کمشنر (فتح خان بندیال) سے وہ غائبانہ ملاقات موت کا پروانہ ثابت ہوئی۔
ریاست سے بھلا کون ٹکر لے سکتا ہے؟ اس کے خلاف ایس ایس پی جناب حاجی حبیب الرحمن نے ایسا گھیرا تنگ کیا کہ 1965ء کی جنگ کے دوران لاہور کا یہ بیتاج بادشاہ مفرور ہو گیا، بالآخر غنڈہ ایکٹ کے دنوں میں ایک مخبر کی اطلاع پر اس کے ٹھکانے کا کھوج لگایا گیا اور وہ پولیس مقابلے میں اپنی چوڑی چھاتی پر بیشمار گولیاں کھا کر داعی اجل کو لبیک کہہ گیا۔ کہا جاتا ہے اس کی لاش دیکھنے کے لیے ایک لمبی قطار لگ گئی۔ لوگوں کو یقین نہیں آتا تھا کہ واقعی جگا مر گیا ہے۔


جگا گجر

جگا گجر کا اصل نام محمد شریف تھا، اسے اس کی والدہ محترمہ بچپن میں پیار سے جگا کہا کرتی تھی جس کی وجہ سے اس کا یہ نام بنا۔ جگا کے غنڈہ بننے کی کہانی بھی بڑی دلچسپ ہے، اس کے بڑا بھائی مکھن گجر کا ایک میلے میں نامی گرامی بدمعاش اچھا شوکر والا سے جھگڑا ہوا، شوکر والا کے آدمی نے مکھن گجر کو قتل کر دیا، تب جگا کی عمر چودہ سال تھی، جگا نے آٹھ دن بعد اپنے بھائی کے قاتل کو قتل کر دیا اور جیل جا پہنچا، وہاں جب اسے پتا چلا کہ قتل کا اصل محرک شوکر والا تھا تو اس نے اس کے خلاف جیل سے ہی ایک منظم کمپین کا آغاز کروایا اور اس پر حملہ بھی کروایا۔
اس حملے میں شوکر والا کے دو آدمی مارے گئے اور شوکر والا زخمی ہوا، بعد ازاں یہ سلسلہ جگا کو باقاعدہ غنڈہ بنانے میں اہم کردار کا حامل رہا۔“

سینئرصحافی اورکالم نگار جناب تنویرظہور جگے کے حوالے سے اپنے ایک کالم میں رقمطراز ہیں: ”لاہور میں جگا ٹیکس مشہور ہے۔ جگا گجر ”بدمعاشی“ کے حوالے سے مشہور تھا۔ اس کے نام سے ”جگا ٹیکس“ کی اصطلاح رائج ہے۔ جگا گجر 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران پولیس مقابلے میں مارا گیا۔ 1965ء سے پہلے کی بات ہے، بکر منڈی لاہور میں جگا کو روزانہ دس بارہ ہزار روپے ملتے تھے۔ بیچنے والا فی بکرا ایک روپیہ اور خریدنے والا فی بکرا دو روپے دیتا تھا۔ شام کو اس کے گھر دس بارہ ہزار روپے پہنچ جاتے تھے۔ ان میں سے وہ روزانہ یا دوسرے تیسرے دن دو تین ہزار روپے غریبوں اور بیواوؤں میں تقسیم کرتا تھا۔

یہ اس کے کردار کا دوسرا پہلو تھا۔ اس کے ٹارگٹ بڑے اور امیر لوگ ہوتے تھے۔ وہ غریبوں سے نہیں چھینتا تھا۔ پھر وہ پاکستان سے بھاگ کر مقبوضہ کشمیر چلا گیا۔ ۔1965ء میں حاجی حبیب الرحمن لاہور میں ایس ایس پی تھے۔ جو آئی جی پنجاب کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔ اگست 2003ء میں ان کا انتقال ہوا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد حاجی حبیب الرحمن سے میری متعدد ملاقاتیں ہوئیں۔ حاجی صاحب نے ایک روز جگا گجر کا پولیس مقابلے میں مارے جانے کا واقعہ سنایا۔ ان کا کہنا تھا کہ جگا گجر کی ایک گرل فرینڈ بکر منڈی کے پاس رہتی تھی جہاں وہ کبھی کبھار اس سے ملنے آیا کرتا۔

میں نے ڈپٹی کمشنر سے کہا کہ جب وہ لاہور آئے تو ہم اس کو پکڑ لیں کیونکہ اس کے خلاف قتل اور ڈکیتی کے متعدد مقدمات ہیں۔ میں نے ڈی سی کو مشورہ دیا کہ آپ ایک ہفتے کا نوٹس دے کر بلیک آؤٹ کی ریہرسل کریں۔ ڈی سی نے وجہ پوچھی تو میں نے انہیں تفصیل بتا دی۔ ڈی سی نے بلیک آؤٹ کی تاریخ مقرر کر کے اخبارات میں اشتہار دیا کہ فلاں رات کو بلیک آؤٹ ہو گا۔ ہمارا ایک ذریعہ تھا جو جگے کو ملتا تھا۔ وہ جگا کے پاس مذکورہ اخبار لے کر گیا کہ فلاں رات کو لاہور میں بلیک آؤٹ ہو گا۔ بلیک آؤٹ کی وجہ سے تمہیں کوئی دیکھ نہیں سکے گا، موقع اچھا ہے۔ تم اپنی والدہ اور گرل فرینڈ کو مل آؤ۔ پیسے دے آؤ اور سیر بھی کر آؤ۔ جگے نے پروگرام بنا لیا۔

ہمارے مخبر نے بتایا کہ جگا اس رات فلاں راستے سے آئے گا۔ میں نے ڈی ایس پی اور اپنی ٹیم سے مشورہ کیا کہ رات 9بجے سول لائن آ جائیں، ایک آپریشن کرنا ہے۔ ہم نے پارٹیاں بنائیں۔ جگا جب بکر منڈی کے قریب آیا تو سامنے سے ایک سب انسپکٹر نے اسے کہا ”جگے توں پولیس دی حراست وچ اے۔ اپنے آپ نوں پولیس دے حوالے کر دے“ اس نے جواب میں مشین گن کا برسٹ مارا۔ پولیس پارٹی تو پہلے ہی چھپی ہوئی تھی۔

اس لیے اس آپریشن میں کوئی آدمی مرا نہیں تھا۔ ایک دو معمولی زخمی ہوئے تھے۔ جونہی اس نے فائر کیا، اسے ایک بار پھر چیلنج کیا گیا مگر اس نے فائر کیا۔ دوسری جانب پولیس والے تھے۔ انہوں نے جوابی فائر کیا تو جگے کو تین گولیاں لگیں۔ وہ اور اس کا ساتھی وہیں ڈھیر ہو گئے۔ صبح اخبارات میں خبر شائع ہوئی کہ ”جگا مارا گیا“ اس کی لاش دیکھنے کے لیے ایک لمبی قطار لگ گئی۔ لوگوں کو یقین نہیں آتا تھا کہ واقعی جگا مر گیا
ہے۔

جگا گجر پر فلم بنی جس میں جگا گجر کا کردار سلطان راہی نے ادا کیا یہ فلم 1976ء میں بنی۔ شروع ہی سے خیر اور شر چلتا آ رہا ہے۔ ہر شخص میں دونوں قوتیں موجود ہوتی ہیں۔ یہ آپ پر منحصر ہے کہ ان میں سے کس کازیادہ استعمال کرتے ہیں۔“
مقامی لوگوں کاکہناہے کہ جگا بزرگوں کا احترام کرتا اور کسی کی بہن، بیٹی کی طرف میلی آنکھ سے نہ دیکھتا تھا۔ جب وہ اپنے والد بڈھے گجر کے ڈیرے پر آتا تو مزنگ اڈا اور قرب و جوار کے مجبور و مقہور لوگ اس کے پاس ظلم کے خلاف فریادیں لے کر آتے اور وہ ان کی دل کھول کر مدد کرتا تھا۔

Comments are closed.