جوبائیڈن امریکہ کے صدر منتخب ،ٹرمپ کا نتائج ماننے سے انکار


فوٹو: سوشل میڈیا

واشنگنٹن(ویب ڈیسک) امریکی صدارتی الیکشن ٹرمپ کو شکست ہو گئی ہے اور ڈیموکریٹک پارٹی کے جوبائیڈن جیت کر صدر جبکہ کملا ہیرس نائب صدر منتخب ہو گئی ہیں۔

امریکی نشریاتی اداروں سی این این، این بی سی نیوز اور سی بی ایس نیوز نے بھی اپنی رپورٹس میں کہا کہ فیصلہ کن ریاست پنسلوینیا میں کامیابی کے بعد جو بائیڈن انتخاب میں فاتح قرار پائے ہیں۔

امریکی میڈیا کے مطابق 77 سالہ جوبائیڈن امریکی تاریخ کے معمر ترین صدر ہوں گے انہوں نے 74 سالہ ڈونلڈ ٹرمپ کو شکست دی ہے انھوں نے مقررہ 270 الیکٹورل کالج کا ہدف 290 الیکٹورل کالج ووٹس لے کر حاصل کر لیا ہے۔

برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکی صدارتی انتخاب کی تاریخ میں ویسے تو یہ دس مرتبہ ہو چکا ہے کہ کوئی صدر اپنے پہلی مدتِ صدارت کے بعد ہی ہار گئے لیکن حالیہ دور میں ایسا چوتھی مرتبہ ہوا ہے.

صدر ٹرمپ مجموعی طور پر 11ویں اور حالیہ دور میں چوتھے ایسے صدر بن گئے ہیں۔ اس سے قبل ایسا 1992 میں ہوا تھا جب بل کلنٹن نے جارج ایچ ڈبلیو بش (سینیئر) کو پہلی مدتِ صدارت کے بعد شکست دی تھی۔

منتخب ہونے والے امریکی صدر جوبائیڈن نے ٹویٹر بیان میں کہا ہے کہ امریکیو یہ میرے لیے اعزاز کی بات ہے کہ آپ لوگوں نے مجھے ملک کی خدمت کے لیے چنا۔

انہوں نے مزید لکھا کہ آگے کا سفر تھوڑا مشکل ہے لیکن سبھی امریکیوں کا صدر بن کر دکھاؤں گا، چاہے اس کے لیے مجھے کسی نے ووٹ دیے ہوں یا نہیں۔ میں آپ کے بھروسے پر پورا اُتروں گا۔

دوسری طرف امریکی نائب صدر کے لیے منتخب ہونے کملا ہیرس نے لکھا کہ جوبائیڈن ہم نے کر دکھایا۔

جو بائیڈن نے اہم ریاستوں وسکونسِن اور مشی گن میں کامیابی حاصل کرکے موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت کے امکانات کم کر دیے تھے۔

اے ایف پی کے مطابق امریکی میڈیا کی طرف سے فتح کے اعلان کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ جوبائیڈن کی فتح کے اعلانات بے بنیاد ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ جوبائیڈن اپنی فتح کے جھوٹے دعوے کر رہے ہیں اور اس کے لیے ان کے حامی میڈیا ان کی مدد کے لیے پوری کوشش کر رہا ہے، جو نہیں چاہتے کہ حقیقت سامنے آئے اور الیکشن ابھی ختم نہیں ہوا۔

ٹرمپ نے نے ٹوئٹر پر پیغام میں کہا کہ منگل کو الیکشن والے دن رات آٹھ بجے کے بعد ہزاروں ووٹ غیرقانونی طور پر وصول کیے گئے۔

صدر کا کہنا تھا کہ انہی ووٹوں نے ان کی اہلیت کو نااہلی میں بدل دیا۔ پنسلوینیا میں ٹریکٹرز کے ذریعے ووٹوں کی گنتی کا عمل چھپا دیا گیا، جنہوں نے صدر کے مطابق دروازے اور کھڑکیاں بلاک کر دیں.

جو بائیڈن امریکی تاریخ میں کسی بھی امریکی صدارتی امیدوار سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے شخص بن گئے ہیں بائیڈن کو اب تک سات کروڑ سے زیادہ ووٹ حاصل ہو چکے ہیں اور وہ اس سے براک اوباما کے ریکارڈ چھ کروڑ 94 لاکھ ووٹروں کو پچھے چھوڑ چکے ہیں۔

ریاست پنسلوانیا کے شہر اسکرینٹن میں پیدا ہونے والے جو بائیڈن نے سیاست کا آغاز 1972 میں ریاست ڈلاوئیر سے سینیٹ کے انتخابات میں کامیابی کے ساتھ کیا۔

انہیں خارجہ پالیسی کا کافی تجربہ ہے اور وہ اپنے سیاسی کیریئر کے دوران سینیٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی کے دو بار چیئرمین رہے ہیں۔ جو بائیڈن نے عدالیہ سے متعلق کمیٹی کے چیئرپرسن کے طور پر بھی فرائض انجام دیے۔

جو بائیڈن کو اپنی زندگی میں کئی دکھوں اور المیہ سے گزرنا پڑا۔ سال 1972 میں عین ان دنوں میں جب وہ سینیٹ کی رکنیت کا حلف اٹھانے والے تھے، ان کی بیوی اور تین بچے کار حادثے کا شکار ہوئے جس میں ان کی اہلیہ اور بیٹی ہلاک ہوگئے.

دونوں بیٹے بیو اور ہنٹر شدید زخمی حالت میں ہسپتال لائے گئے، جو بائیڈن حلف اٹھائے بغیر ہسپتال روانہ ہوئے اور بعد ازاں وہیں سے سینیٹ کی رکنیت کا حلف اٹھایا۔

سال 2015 میں جب جو بائیڈن امریکا کے نائب صدر تھے، ان کے 46 سالہ بیٹے بیو بائیڈن کی دماغ میں کینسر کی وجہ سے موت ہو گئی۔

جو بائیڈن نے صدر کے لیے پہلی 1988 میں انتخاب میں حصہ لیا لیکن برطانیہ کی لیبر پارٹی کے رہنما نیل کینوک کی تقریر چوری کرنے کے انکشاف کے بعد وہ دوڑ سے دستبردار ہوگئے۔

انہوں نے 2008 میں ایک بار پھر اپنی قسمت آزمائی لیکن اس بار بھی ناکام رہے اور ڈیموکریٹک پارٹی نے براک اوباما کو صدر کے لیے نامزد کیا۔ جو بائیڈن کو بعد ازاں نائب صدر کے لیے نامزد کیا گیا اور اوباما کے ساتھ اگلے 8 سال تک خدمات انجام دیں۔

بائیڈن، جو ڈونلڈ ٹرمپ کے ’پہلے امریکا‘ کے نعرے کا ’تنہا امریکا‘ کہہ کر مذاق اڑاتے ہیں، بطور عالمی رہنما ملک کی پوزیشن بحال کرانے کے لیے پرعزم ہیں۔

کملا اس سے قبل ڈیموکریٹک صدارتی امیدوار بننے کی دوڑ میں جو بائیڈن کے مخالف تھیں۔ کیلیفورنیا سے تعلق رکھنے والی سینیٹر کی والدہ انڈیا جبکہ والد جمیکا میں پیدا ہوئے تھے۔

کملا ہیرس کو ایک عرصے تک صدارتی امیدوار بننے کی دوڑ میں ایک مقبول امیدوار کے طور پر دیکھا جا رہا تھا۔وہ ریاست کیلی فورنیا کی سابق اٹارنی جنرل بھی رہ چکی ہیں اور وہ نسلی تعصب کے خلاف ہونے والے مظاہروں کے دوران پولیس کے نظام میں اصلاحات کی بھی حامی رہی ہیں۔

کملا ہیرس شہر آکلینڈ میں دو تارکین وطن والدین کے ہاں پیدا ہوئیں۔ ان کی والدہ انڈیا جبکہ والد جمیکا میں پیدا ہوئے تھے۔

والدین کی طلاق کے بعد کملا ہیریس کی پرورش بنیادی طور پر ان کی ہندو سنگل والدہ شیاملا گوپالن ہیریس نے کی جو کہ کینسر کے شعبے میں محقق اور شہری حقوق کی سرگرم کارکن تھیں۔

وہ اپنے انڈین ثقافتی پس منظر میں پلی بڑھیں اور اپنی والدہ کے ساتھ وہ انڈیا کے دورے پر آتی رہتی تھیں لیکن ان کی والدہ نے پوری طرح آکلینڈ کی سیاہ فام ثقافت کو اپنا لیا تھا اور انھوں نے اپنی دو بیٹویں کملا اور ان کی چھوٹی بہن مایا کو اسی تہذیب و ثقافت میں رچا بسا دیا تھا۔

Comments are closed.