بھارت کو پاکستان اورحریت قیادت سے بات کرنا ہوگی، محبوبہ مفتی

اسلام آباد (ویب ڈیسک) مقبوضہ جموں وکشمیر کی سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے کہا ہے بھارت کو پاکستان اور حریت قیادت سے بات چیت کرنی ہوگی۔

انھوں نے کہا پاکستان ہمارا ہمدرد ہے تو دونوں ملکوں کو کوئی راستہ نکالنا چاہیے۔ پلوامہ حملے کے بعد کوئی کسی کی بات سننے کو تیار نہیں، بھارتی فوج کی تعداد بڑھانے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔

دنیا نیوز کے پروگرام میں بات کرتے ہوئے محبوبہ مفتی نے کہا پلوامہ حملے میں فوجیوں کی ہلاکتوں کا سارا غصہ کشمیریوں پر نکالا جا رہا ہے، ہر طرف کشمیری طلبہ اور تاجروں کو ہراساں کیا جا رہا ہے۔

جب دو ملک لڑتے ہیں تو کشمیریوں پر مصیبت آ جاتی ہے۔ پلواما کے بعد ہزاروں کشمیری بچے بھارت چھوڑ کر واپس آئے۔ بدقسمتی سے کشمیری الیکشن کو بری طرح استعمال کیا جاتا ہے۔

انھوں نے کہا افضل گرو کو 2014ء کے الیکشن سے پہلے پھانسی دی گئی۔ افضل گرو پھانسی کے عدالتی فیصلے کا خمیازہ کشمیر کو بھگتنا پڑا۔ اب الیکشن تک نجانے کیسا ماحول ہو، ہمارے سر پر تلوار لٹک رہی ہے، کشمیری عوام بہت مشکل میں ہیں۔

ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے محبوبہ مفتی کا کہنا تھا کہ پاکستان بھارتی حکومت کو آمادہ کرے کہ جذباتی فیصلہ نہ کرے۔ ایسی تدبیر کی جائے کہ ٹکراوٴ نہ ہو، کشمیریوں کا بھلا ہو جائے گا۔

انھوں نے کہاجنگ مسئلے کا حل نہیں، بات ہو سکتی ہے تو جنگ میں کیوں جائیں۔ موجودہ ماحول میں امن کی سوچ رکھنے والوں کو آگے آنا چاہیے۔ امریکا بھی اتنے برسوں بعد بھی افغانستان میں مذاکرات کر رہا ہے۔

محبوبہ مفتی نے کہا وزیراعظم پاکستان عمران خان نے کہا تھا کہ ثبوت دیں تو ایکشن ہوگا، امید ہے ایسا ہی ہوگا،انہوں نے کہا کہ پلوامہ حملے کے بعد غصہ کشمیریوں پر نکالا جا رہا ہے۔ پکڑ دھکڑ اور گرفتاریاں درست نہیں، جمہوریت میں ایسا نہیں ہوتا۔

سپریم کورٹ میں کشمیر سے متعلق 35 اے کا کیس چل رہا ہے۔ کشمیریوں کو تنگ نہ کرنے کے عدالتی حکم پر شکر گزار ہیں، ایسا حل نکالنا ہوگا جو کشمیریوں، بھارت اور پاکستان کو قابل قبول ہو۔

محبوبہ مفتی نے کہا کہ گزشتہ 30 سال میں مسئلہ کشمیر نے تشدد کی شکل اختیار کر لی ہے۔ مقبوضہ جموں وکشمیر میں فوج کی تعداد بڑھانے سے معاملات مزید الجھیں گے۔

انہوں نے بتایا کہ بی جے پی نے شرائط مانی تھیں تب ہی اتحادی حکومت بنائی تھی۔ بی جے پی سے اتحاد میں کئی علاقوں سے فوج کو نکالنا طے ہوا تھا۔ بی جے پی کیساتھ طے پایا تھا کہ آرٹیکل 370 میں ردوبدل نہیں کیا جائیگا۔

میری حکومت کو بھی کریک ڈاوٴن کا کہا تھا مگر میں نے انکار کر دیا۔ میں نے آرٹیکل 370 اور آرٹیکل 35 اے کو ہاتھ نہ لگانے دیا۔ جب میں حکومت میں تھی میں نے کہیں اپنا موقف نہیں بدلا۔ مجھ پر پاکستان اور حریت سے نرم پالیسیوں کا الزام لگایا جاتا تھا۔

Comments are closed.