ایک اور دریا کا سامنا تھا


محبوب الرحمان تنولی

عمران خان کے دست راست نعیم الحق ابدی نیند سو چکے۔۔جہانگیر خان ترین کو پہلے عدالت نے نکرے لگا یا تھا پھر چینی بحران نے بے اعتبارا کردیا۔۔شاہ محمود قریشی خود سیاسی قرنطینہ میں ہیں۔۔حلیم خان قصہ پارینہ بن چکے۔۔جناب صدر علوی کے بڑے محل کوئی آتا ہے نہ جاتا ہے۔۔اسد عمر کی یاری میں وہ پہلی جیسی چاشنی نہیں رہی۔۔عثمان بزدار خود مشاورت کیلئے دروازے کھلے رکھتے ہیں۔۔ ایسے میں وزیراعظم صاحب کس سے مشاورت کے بعد فیصلے کرتے ہوں گے؟

وزیراعظم عمران خان کا انداز نہیں بدلا لیکن اب ان کی بالز پر سلپ میں کیچ چھوٹتا ہے تو کبھی لانگ آن پر گرا دیا جاتا ہے۔۔لاک ڈاون نہ کرنے کے اعلان کے اگلے ہی دن لاک ڈاون کا اعلان ہوا تو لگا اب کپتان صاحب کی فیلڈ پلیسنگ کسی اور نے کی ہے۔۔کرکٹ کا اصول تو یہ ہے کہ سلیکٹرز ٹیم کا انتخاب کرکے گیارہ کھلاڑی کپتان کے سپرد کردیتے ہیں اور پھر ان کو کیسے کھلانااور لڑانا ہے یہ کام خود کپتان کو کرنا ہوتا ہے۔

میاں نواز شریف کے اقتدار کے آخری دنوں میں سابق وزیراعظم کے دائیں بائیں والے بار بار وضاحت کرتے تھے کہ سیم پیج پر ہیں۔۔ پھر اچانک ایک دن پتہ چلا نواز شریف صاحب سیم پیج پر نہیں رہے بلکہ اگلے پیج پر چلے گئے ہیں۔۔لاک ڈاون فیصلے پر جب یکے بعد دیگرے فیصلے تبدیل ہوئے۔ چیف سیکرٹری پنجاب صاحب کے نوٹیفکیشنز کا ذکر آیا اور خان صاحب کی معنی خیز خاموشی کے بعد صورت ایسے دکھائی دے رہی تھی جیسے ان کی بال پر پھر کسی نے کیچ چھوڑ دیا ہو۔

عمران خان اچھا کھیلتے ہوں گے دباو میں کرکٹ کے دوران۔۔۔ جس میدان میں اب وہ نبر د آزما ہیں یہاں دباو میں اچھا کھیلنا ممکن ہی نہیں ہوتا۔۔ بلکہ دباو میں آ کر الٹے فیصلے ہو نے لگتے ہیں۔۔کبھی بندہ تاجروں سے ٹیکس اکٹھے کرنے کا دعویٰ کرتا ہے اور کبھی آرڈیننس کے زریعے تاجروں کو نیب سے تحفظ دینا پڑ جاتاہے۔۔پارلیمنٹ کی بالا دستی کاخواب ادھورا لگنے لگتا ہے جب بنی بنائی قانون سازی آتی ہے اوراسے ایوان صدر کی محض مہرتصدیق ثبت کرنا ہوتی ہے۔

یقینا یہ مرحلہ کسی کھلاڑی وزیراعظم کو اسپاک فکسنگ کے جرم کی طرح لگتاہوگا مگر جب کروڑوں عوام سے وعدے اور تبدیلی کے نعرہ کے ساتھ میدان میں اترے ہوں تو بندہ میدان چھوڑ بھی نہیں سکتا۔۔جب اٹھتے بیٹھتے چوروں کو جیلوں میں ڈالنے اور پیسہ نکلوانے کے دعوے کئے ہوں اور پیسہ نکلوانے کی بجائے جیلوں سے بندے نکلوانے پڑ جاتے ہوں تو یہ درد کتنا اذیت ناک ہوتا ہوگا۔۔شکر ہے وضاحتوں کیلئے معاونین اور ترجمانوں کی ایک کھیپ موجود ہے جس کو اکھڑے بیٹ پربینڈج کے طریقے جانتے ہیں۔

آصف زرداری صاحب کی پیپلز پارٹی کی حکومت میں سیانے لوگ کہاکرتے تھے کہ زرداری صاحب کی مفاہمت یہ ہے کہ وہ مداخلت مائنڈ نہیں کرتے ۔۔بدلے میں ان کی طرف بھی کوئی مداخلت نہیں ہوئی اور پانچ سال ٹپا دیئے۔۔خان صاحب نے اب تک بلوچستان، کراچی اور گجرات والوں کو کئی بار منایاہے ۔۔ جب تک پی ایم صاحب کی لائن لینتھ درست نہیں ہوتی امکان غالب ہے کہ انھیں یہ مشق پھر بھی کرنی پڑ سکتی ہے۔

کبھی کبھی ایسا ہوتاہے کہ ٹیم میں آپ کا کوئی کھلاڑی درست پرفارمنس نہیں دے پا رہا ہوتا ۔۔لیکن اس کی منجمنٹ اور کپتان اسے بار بار موقعے دیتے ہیں کیو نکہ وہ اس کی صلاحیتوں سے آشنا ہوتے ہیں انھیں پتہ ہوتا ہے کہ جس دن وہ کھیلے گا میچ وننگ اننگ کھیل جائے گا۔۔ہمارے کپتان کی پرفارمنس میں تسلسل نہیں آ سکا لیکن اس کے حامی یوتھ فورس ۔۔ جسے مخالفین گالی کی طرح یوتھیے بھی کہتے ہیں وہ کپتان سے مایوس نہیں ہیں انھیں اپنے کپتان پر بھروسہ ہے کہ وہ آخری بال تک لڑنے کا حوصلہ رکھتاہے۔

خان صاحب اپنی ذات میں انجمن ہیں کسی کو شبہ ہو تو وزیراعظم بننے کے بعد اہم سے اہم تقریب ملاحظہ فرما لیں ۔ وزیراعظم عمران خان نے تیاری کی ہو تو الگ بات ہے۔۔ لکھی ہوئے الفاظ نہیں پڑھے۔ کئی بار کبھی جغفرافیہ میں کھسک گئے کبھی الفاظ کی ادائیگی میں پھسلے مگر ان کا اعتماد متزلزل نہیں ہوا۔۔اپنی پارٹی کے وزرا ء میچ وننگ کارکردگی ابھی تک نہیں دکھا سکے سوائے مراد سعید کے۔۔اور در اندا زوں کا خان صاحب کے ساتھ فٹ ورک ملتا نہیں ہے۔۔ کچھ اطراف کے سگنل پکڑ لیتے ہیں۔۔

بدقسمتی سے خان صاحب کی ابتداء معیشت کی دلدل سے ہوئی ہے جس سے نکلنے کیلئے ۔۔درآمدی ٹیم کا سہار ا لیاگیا۔۔ عوام پر بوجھ ڈال کر معیشت کی بہتری کے آثار نظر آئے تو پھر ۔۔ کورونا وائرس نے آلیا ۔۔دنیا بھر کی طرح ان دنوں پاکستان بھی لاک ڈاون ہے۔۔ سرکاری ادارے،کارو باری مراکز، مساجد، مدارس اور عوام تک گھروں میں بند ہیں۔۔وزیراعظم عمران خان کیلئے ایک اور مشکل آن پڑی ہے۔لاک ڈاون پر ناخوش بھی ہیں اور عوام کی بھوک بھی نہیں مٹا سکتے ۔

ایک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا

حکومتی وزراء ، مشیر ، ادارے ، نجی تنظیمیں اور شخصیات کیمروں کے سامنے خوب ثواب کما رہے ہیں۔ بہت کم ایسے ثواب کمانے والے ہیں جو بغیر کیمرے کے اشیائے خورد ونوش تقسیم کرتے ہیں لیکن ایسے افراد اب بھی موجود ہیں۔۔ خود وزیراعظم صاحب کی اخبارات میں تصویر چھپی ہے جس میں وہ راشن تقسیم کررہے تھے حالانکہ ماضی میں وہ ایسی تصاویر پر نکتہ چینی کیا کرتے تھے۔۔غریب آدمی، مزدور اور شاطر سیاسی کارکن تو مستفید ہوتے ہوں گئے لیکن سفید پوشوں کاایک ایسا حلقہ بھی ملک میں موجود ہے جو کسی کو یاد ہی نہیں ہے۔

یہ لوگ راشن کیلئے لسٹ میں نام نہیں لکھوا سکتے اور کیمروں کے آگے آ کر راش وصول کرنا انھیں گوارہ نہیں ہے۔۔بھوک سے کئی بار مریں گے تو یہی مریں گے۔قرض میں ڈوبتے جائیں گے مگر حکمرانوں سے بھیک نہیں مانگے گے۔ ۔حکمرانوں کی نظر کرم ادھر ہی پڑے گی جدھرانکے چہلے اشارہ کریں گے۔۔

ہمارے ایک صحافی دوست نے آج سوشل میڈیا پر لکھا ہے کہ میں سفید پوش ہوں۔۔ 8ماہ سے اس لئے بے روزگارہوں کہ میں نے ادارے سے اپنی تنخواہ مانگنے کی جرات کرلی تھی۔اسے گلہ تھا کہ صحافی لیڈر پتہ نہیں ماسک اور راشن کدھر بانٹتے پھررہے ہیں۔۔ضرورت مند انھیں کس خوردبین سے نظر آ جاتے ہیں ؟ طاہر جعفری صاحب کیلئے مشورہ ہے خوشامد کافن سیکھ لیں۔۔پھر دیکھیں کیمروں سمیت وہ آپ کے پاس ہوں گے اور بھیک کے انداز میں امداد وصولتے سوشل میڈیا پر تصاویر بھی۔

نفرت سی ہوتی ہے ایسے چھچھورے راشن بانٹنے والوں سے ۔جنھیں کیمرے اور تصویرکے بغیر ثواب کمانے کی توفیق نہیں ہوتی۔۔ سامان اللہ کے نام پر ثواب کیلئے بانٹتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ حدیث شریف کامفہوم ہے کہ اگر آپ کا دایاں ہاتھ دے رہاہے تو بائیں کو بھی پتہ نہیں چلنا چائیے۔
لیکن جو پیشہ ور سخی ہیں وہ سرشت سے باز نہیں آتے ۔۔وزیراعظم صاحب آپ تو کم سے کم ایسا نہ کریں ۔۔ بلکہ ہو سکے تو راشن بانٹنے اور امداد دینے کی کوریج پر پابندی لگا دیں۔۔ بے شک فنڈز کا حساب کرکے فائلوں میں رکھتے رہیں ۔۔۔خبر ناموں اور اخبارات میں دامن پھیلائے راشن لینے والوں کی ویڈیوزاور تصاویر دیکھ کر دل دکھتاہے۔
مرغوب حسین طاہر نے کہا تھا۔

تتلیوں کے موسم میں نوچنا گلابوں کا، ریت اس نگر کی ہے اور جانے کب سے ہے
دیکھ کر پرندوں کو باندھنا نشانوں کا، ریت اس نگر کی ہے اور جانے کب سے ہے

تم ابھی نئے ہو ناں! اس لیے پریشاں ہو، آسمان کی جانب اس طرح سے مت دیکھو
آفتیں جب آنی ہوں، ٹوٹنا ستاروں کا، ریت اس نگر کی ہے اور جانے کب سے ہے

شہر کے یہ باشندے بو کے بیج نفرت کے، انتظار کرتے ہیں فصل ہو محبت کی
چھوڑ کر حقیقت کو ڈھونڈنا سرابوں کا، ریت اس نگر کی ہے اور جانے کب سے ہے

اجنبی فضاؤں میں اجنبی مسافر سے، اپنے ہر تعلق کو دائمی سمجھ لینا
اور جب بچھڑ جانا مانگنا دعاؤں کا، ریت اس نگر کی ہے اور جانے کب سے ہے

خامشی مرا شیوہ گفتگو ہنر اُس کا، میری بے گناہی کو لوگ کیسے مانیں گے ؟
بات بات پر جبکہ مانگنا حوالوں کا، ریت اس نگر کی ہے اور جانے کب سے ہے

Comments are closed.