امریکہ میں 16سال بعد سزائے موت پر عمل درآمد شروع، 5 کے احکامات جاری

فوٹو: فائل

ویب ڈیسک: 26جولاہی 2019

امریکا کی وفاقی حکومت نے 16 سال کے وقفے کے بعد خطرناک قیدیوں کو دی گہی سزائے موت پر عمل درآمد شروع کرنے کا اعلان کردیا۔

اس حوالے سے برطانوی نشریاتی ادارے نے خبر دی ہے کہ امریکا کی وفاقی حکومت نے اس بات کا اعلان کیا ہے کہ وہ 16 برس کے وقفے کے بعد سزائے موت پر عمل درآمد شروع کررہی ہے۔

امریکی اٹارنی جنرل ولیم بار نے کہا کہ انہوں نے بیورو آف پریژنز (جیل خانہ جات بیورو) کو ہدایات جاری کی ہیں کہ وہ ابتدائی طور پر سزائے موت کے منتظر پانچ قیدیوں کی سزا پر عمل درآمد کی تیاریاں کرے۔

انہوں نے بتایا کہ یہ پانچ قیدی بچوں سے جنسی زیادتی، خواتین اور معمر افراد کے قتل کے جرم میں سزائے موت پاچکے ہیں اور انہیں دسمبر 2019 اور جنوری 2020 کے دوران موت کے گھاٹ اتاردیا جائے گا۔

ولیم بار نے کہا کہ ‘اوباما اور ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ، دونوں ہی حکومتوں سے محکمہ انصاف نے سنگین مقدمات پر سزائے موت پانے والے قیدیوں کی سزا پر عمل درآمد کی اجازت مانگی تھی۔

امریکی محکمہ انصاف قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتا ہے اور ہمارے اوپر متاثرہ افراد اور ان کے خاندان کی طرف یہ ذمہ داری ہے کہ ہم مجرموں کو دی جانے والی سزاؤں پر عمل کریں’۔

محکمہ انصاف کی جانب سے اس اعلان کے بعد اب امریکا میں وفاقی سطح پر سزائے موت پر 2003 سے عائد غیر اعلانیہ پابندی ختم ہوگئی ہے۔

2003 میں آخری بار جنگِ خلیج میں شرکت کرنے والے فوجی 53 سالہ لوئی جونز کو سزائے موت دی گئی تھی جس پر 19 سالہ خاتون سپاہی ٹریسی جوئے مک برائیڈ کو اغواء اور قتل کرنے کا الزام تھا۔

یاد رہے کہ امریکا میں 1972 میں سپریم کورٹ نے وفاق اور ریاستی سطح پر سزائے موت پر پابندی عائد کردی تھی تاہم 1988 میں اسے بحال کردیا گیا تھا۔

امریکہ کے ڈیتھ پینلٹی انفارمیشن سینٹر کے اعداد و شمار کے مطابق 1988 سے 2018 کے درمیان وفاقی سطح پر 78 افراد کو سزائے موت سنائی گئی تاہم صرف 3 کی سزا پر عمل درآمد کیا گیا اور اس وقت وفاق کے پاس 62 ایسے قیدی ہیں جو سزائے موت کے منتظر ہیں۔

ولیم بار نے بتایا کہ انہوں نے جیل خانہ جات بیورو کو ہدایات دی ہیں کہ قیدیوں کو سزائے موت دینے کیلئے تین ادویات پر مشتمل انجیکشن کے بجائے ایک ہی دوا ‘ پینٹو باربی ٹل’ استعمال کریں۔

یہ دوا ایک طاقت ور سکون بخش دوا ہے جس کی زیادہ مقدار انسانی جسم بشمول اعصابی نظام کو بتدریج مفلوج کردیتی ہے اور پھر موت واقع ہوجاتی ہے۔

امریکا میں سزائے موت کیلئے پاکستان و دیگر ممالک میں رائج تختہ دار پر لٹکانے کا رواج نہیں، وہاں قیدیوں کو اسٹریچر نما بستر پر لٹایا جاتا ہے اور اس کے ہاتھ پاؤں باندھ دیے جاتے ہیں اور پھر زہر کا ٹیکہ لگا کر موت کے گھاٹ اتارا جاتا ہے۔

ابتدائی طور پر پانچ قیدیوں کو سزائے موت دی جائے گی۔ پہلا قیدی ڈینیئل لیوس ہے جس نے میاں بیوی اور ان کی 8 سالہ بیٹی کو قتل کیا۔

دوسرا قیدی لیزمنڈ مچل ہے جس نے 63 سالہ خاتون اور ان کی 9 سالہ پوتی کو قتل کیا۔تیسرا قیدی ویسلے ایرا پوکرے ہے جس نے 16 سالہ لڑکی کا ریپ اور قتل اور 80 سالہ خاتون کو قتل کیا۔

چوتھا قیدی الفریڈ بورجیوس ہے جس نے اپنی دو سالہ بیٹی کو قتل کیا جبکہ پانچواں قیدی ڈسٹن لی ہانکن ہے جس نے دو بچوں سمیت 5 افراد کو قتل کیا۔

ان پانچوں کو سزائے موت امریکی ریاست انڈیانا کے ٹیرا ہوٹ اصلاحی قید خانے میں دی جائے گی جبکہ اس کے علاوہ مزید قیدیوں کو آنے والی تاریخوں میں سزائے موت دی جائے گی۔

امریکا کی 29 ریاستوں میں سزائے موت کو قانونی حیثیت حاصل ہے جبکہ دیگر ریاستوں پر یا تو اس پر پابندی عائد ہے یا پھر اس پر عمل نہیں کیا جاتا۔

1976 کے بعد سے اب تک ریاست ٹیکساس میں سب سے زیادہ 561 قیدیوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا، ریاست ورجینیا 113 اور اوکلوہاما 112 سزائے موت کے ساتھ دوسرے اور تیسرے نمبر پر رہے۔

امریکا میں اس وقت مجموعی طور پر 2 ہزار 673 قیدی سزائے موت کے منتظر ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ 733 قیدی ریاست کیلیفورنیا میں ہیں۔ کیلیفورنیا نے 1976 کے بعد سے اب تک صرف 13 قیدیوں کی سزائے موت پر عمل درآمد کی ہے۔

واضح رہے پابندی کے باعث ا مریکا میں 1998 سے 2018 کے درمیان سزائے موت سنائے جانے کی سالانہ شرح بھی 85 فیصد تک کم ہوگئی ہے، پہلے سال میں تقریباً 295 افراد کو سزائے موت سنائی جاتی تھی جو اب کم ہوکر 43 ہوگئی تھی۔

Comments are closed.