الیکشن کمیشن ڈٹ گیا

انصار عباسی

خفیہ ووٹنگ سے متعلق صدارتی ریفرنس کیس میں چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان دو روز سے سپریم کورٹ کے سامنے پیش ہو رہے ہیں اور اِس دوران جو کارروائی ہوئی اُس میں پہلی دفعہ احساس ہوا کہ الیکشن کمیشن بھی ایک آزاد ادارہ ہے اور وہ اپنی رائے بھی رکھتا ہے۔ سپریم کورٹ کے جج حضرات اگرچہ الیکشن کمیشن کے جواب سے مطمئن نہیں لیکن الیکشن کمیشن اپنے موقف پر ڈٹا ہوا ہے۔

عدالت کے بار بار کہنے کے باوجود کہ کوئی طریقہ کار تجویز کریں،تا کہ سینیٹ الیکشن کو شفاف بنایا جا سکے اور سیکرٹ بیلٹ کے تحت ڈالے گئے ووٹ کے ووٹر تک ضرورت پڑنے پر پہنچا جا سکے لیکن چیف الیکشن کمشنر نے گزشتہ روز اور آج بھی یہی دہرایا کہ سیکرٹ بیلٹ کے تحت ڈالے گئے ووٹ کے ذریعے ووٹر تک نہیں پہنچا جا سکتا۔

الیکشن کمیشن کو حکومتی موقف کے خلاف اِس طرح ڈٹے ہوئے دیکھ کر نجانے کیوں میرا خیال پیپلز پارٹی کی طرف سے ن لیگ اور پی ڈی ایم کو دی گئی اُس یقین دہانی کی طرف جا رہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سینیٹ الیکشن میں نیوٹرل رہے گی۔

عمران خان کی حکومت کی خواہش ہے کہ آئینی ترمیم کے بغیر ہی کوئی راستہ نکالا جائے تاکہ سینیٹ الیکشن میں ڈالے گئے ووٹوں کے بارے میں معلوم ہو سکے کہ کس رکنِ اسمبلی نے کس امیدوار کو ووٹ ڈالا؟ آئین سینیٹ انتخاب کے لئے خفیہ ووٹ کی بات کرتا ہے اور بغیر آئینی ترمیم خفیہ ووٹ کو شو آف ہینڈ میں تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ حکومت اور اپوزیشن کے جو حالات ہیں اُن میں آئینی ترمیم تو ممکن نہیں۔

حکومت نے کوئی راستہ نکالنے کے لئے سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کر دیا لیکن الیکشن کمیشن ڈٹ گیا کہ بغیر آئینی ترمیم کے سینیٹ انتخابات کے لئے خفیہ ووٹ کے سسٹم کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔

اسی دوران حکومت نے اپنی بےچینی میں ایک صدارتی آرڈی ننس بھی جاری کر دیا تاکہ سینیٹ انتخابات میں ووٹ ڈالنے والے اسمبلی ممبران کو ضرورت پڑنے پر ظاہر کیا جا سکے کہ کس نے کس کو ووٹ دیا، جس کا مقصد ہارس ٹریڈنگ اور سینیٹ کے ووٹوں کو ماضی کی طرح بکنے سے بچانا تھا لیکن مسئلہ یہ ہے کہ آئین میں درج ووٹنگ کے طریقہ کار کو صدارتی آرڈننس کے ذریعے بدلا نہیں جا سکتا۔

الیکشن کمیشن کی بھی یہی رائے ہے جس پر حکومت الیکشن کمیشن سے کافی ناراض ہے اور اب اُس کی تمام تر امیدیں سپریم کورٹ سے وابستہ ہیں کہ وہ اپنے فیصلہ کے ذریعے آئین کی متعلقہ شق کی تشریح کرکے ایسا راستہ نکالے کہ ایسے اسمبلی ممبران جو اپنی پارٹی لائن کے برعکس کسی دوسرے امیدوار کو ووٹ ڈالیں تو اُن کی نشاندہی ہو سکے اور سینیٹ الیکشن میں ووٹوں کی خریدو فروخت کے عمل کو روکا جا سکے۔

ریفرنس کی Hearingکے دوران بنچ میں شامل جج حضرات بار بار چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن کے وکیل پر زور دیتے رہے کہ کوئی طریقہ نکالیں کیوں کہ انتخابات کو صاف اور شفاف بنانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے۔

الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ آئین اور قانون کے تحت خفیہ ووٹ کا مطلب ہی یہی ہے کہ ایسا ووٹ جو کسی صورت ظاہر نہ ہونے پائے تاکہ ووٹر تک نہ پہنچا جا سکے۔ ہو گا وہی جو سپریم کورٹ کا فیصلہ ہوگا لیکن یہ مسئلہ آئینی قانونی سے زیادہ سیاسی بن چکا ہے۔ اپوزیشن کی طرف سے پہلے ہی سپریم کورٹ پر سیاسی دباؤ بڑھایا جا رہا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ حکومت کی خواہش پر عدلیہ کوئی ایسا فیصلہ نہ کرے جس سے وہ خود متنازعہ ہو جائے۔

ماضی میں پاکستان کی عدلیہ نے آئین کی شقوں کی تشریح کی جسے سب نے تسلیم بھی کیا اگرچہ قانونی ماہرین کی رائے اس معاملہ میں تقسیم ہے کہ کیا سپریم کورٹ تشریح کے ذریعے کسی آئینی شق کے معنی تبدیل کر سکتی ہے؟

حکومت کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ آئین کی کسی بھی شق کی تشریح کر سکتی ہے لیکن اپوزیشن کا اب یہ کہنا ہے کہ آئین میں ترمیم کا حق صرف پارلیمنٹ کو ہے اور کسی عدالتی تشریح سے خفیہ ووٹ کو ظاہر نہیں کیا جا سکتا۔ اب دیکھتے ہیں آگے کیا ہوتا ہے؟

(بشکریہ روزنامہ جنگ)

Comments are closed.