سپریم کورٹ نےلاہور ہائیکورٹ کافیصلہ معطل کردیا،چیف جسٹس جج اوروکیل پر برہم
فوٹو: فائل
اسلام آباد: سپریم کورٹ نےلاہور ہائیکورٹ کافیصلہ معطل کردیا،چیف جسٹس جج اوروکیل پر برہم،لاہور ہائی کورٹ نے بیوروکریسی کوڈی آراوز تعیناتی پرالیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کیا تھا،سپریم کورٹ نے اس فیصلہ پر عمل درآمد روک دیا۔
سپریم کورٹ کا الیکشن کمیشن کو آج ہی (15دسمبر) انتخابی شیڈول جاری کرنے کا حکم دے دیا جبکہ عدالت نے تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے درخواست گزار عمیر نیازی کو نوٹس جاری کردیا۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور سینیئر ججز سے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی ملاقات کے بعد الیکشن کمیشن کی جانب سے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی گئی۔
الیکشن کمیشن نے لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جس میں لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کوکالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی اور کہا گیا کہ سپریم کورٹ 8 فروری کوانتخابات کرانے کے فیصلے پرعمل درآمد کرائے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی جس میں جسٹس سردار طارق مسعود اور جسٹس منصور علی شاہ شامل تھے جبکہ عدالتی کارروائی براہ راست نشر کی گئی۔
چیف جسٹس نے سماعت کے الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی سے استفسار کیا کہ کیا جلدی تھی کہ اس وقت آنا پڑا؟ انہوں نے مؤقف اختیار کیا کہ انتخابات 8 فروری کو کرانے کے لیے آج درخواست لازم تھی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر میں فلائٹ پر نکل جاتا تو کیا ہوتا؟ خیر آئینی ذمہ داری ہے پوری کرنی ہے۔
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ آراوز ڈی آر اوز بیوروکریسی سے لینے کا الیکشن کمیشن کا فیصلہ لاہورہائیکورٹ نے معطل کیا، لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے سے انتخابی عمل رک گیا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آج کے بینچ کے حوالے سے وضاحت کرنا چاہتا ہوں، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت اب بینچز تشکیل دیے جاتے ہیں، میری خواہش تھی کہ موسٹ سینیئر ججز بینچ میں شامل ہوں اور میں نے موسٹ سینیئر ججز کے نام بینچ کیلئے تجویز کیے تھے۔
انہوں نے مزید کہا کہ جسٹس اعجاز الاحسن مصروفیات کے باعث نہیں آ سکے پھر ہم نے جسٹس منصور علی شاہ کو تکلیف دی۔
وکیل الیکشن کمیشن نے مؤقف اختیار کیا کہ الیکشن کمیشن کی ریٹرننگ افسران کے لیے پہلی ترجیح اپنے افسران ہیں، ڈی آر اوز اور آر اوز کی فہرست حکومت دیتی ہے، پی ٹی آئی نے کہا ہے آئین کے آرٹیکل 218 تھری کے تحت شفاف الیکشن کرائے جائیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا آرٹیکل 218 تھری میں کچھ ایسا ہے کہ انتخابات شفاف نہیں ہو سکتے؟
وکیل الیکشن کمیشن نے بتایاکہ پی ٹی آئی کا مؤقف ہے آر اوز ڈی آر اوز کی تعیناتی کے لیے چیف جسٹس ہائیکورٹ سے مشاورت کی جائے، الیکشن کمیشن نے عدلیہ کو فروری میں جوڈیشل افسران کیلئے خط لکھا تھا۔
عدلیہ نے زیرالتوا مقدمات کے باعث جوڈیشل افسران دینے سے معذوری ظاہر کی تھی، اسلام آباد ہائیکورٹ نےجواب نہیں دیا، پشاور ہائی کورٹ نےکہاجوڈیشل پالیسی سازکمیٹی سےرجوع کریں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ہائیکورٹ کے خط کے بعد درخواست گزار کیا انتخابات ملتوی کرانا چاہتے تھے؟
وکیل الیکشن کمیشن نے دلائل میں کہا کہ درخواست گزار کہتے ہیں انتظامی افسران کی آر او تعیناتی ہمیشہ کیلئے ختم کی جائے، درخواست میں استدعا تھی کہ الیکشن کمیشن کو عدلیہ سے ریٹرننگ افسران لینے کی ہدایت کی جائے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے پوچھاکہ یہ شق تو کبھی بھی چیلنج کی جاسکتی تھی، اب کیوں کی گئی؟ کیا لاہور ہائیکورٹ نے سندھ، کے پی اور بلوچستان کے آر اوز کا نوٹیفکیشن بھی معطل کردیا؟ مجموعی طور پرکتنے آراوز اور ڈی آر اوز تقرر کیے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اگر الیکشن کمیشن بھی الیکشن نہ کرائے جوڈیشل افسران بھی نہ کرائیں تو پھر کون الیکشن کرائے؟ اس پر وکیل الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ الیکشن کمیشن کی اولین ترجیح عدلیہ سے ریٹرننگ افسران لینا ہی تھا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ وکیل پی ٹی آئی آخر چاہتے کیا تھے؟ ہائیکورٹ اپنی ہی عدالت کی خلاف رٹ کیسے جاری کر سکتی ہے؟ پی ٹی آئی کی درخواست پر ہی سپریم کورٹ نے انتخابات کا فیصلہ دیا تھا۔
کہا عمیر نیازی کی ایک درخواست پر پورے ملک میں انتخابات روک دیں؟ عمیر نیازی کی درخواست تو سپریم کورٹ کے حکم کی توہین ہے، کہا لکھا تو بیرسٹر ہے اورآئین سے کھیلنے چلا ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے قرار دیا کہ درخواست جمہوریت کو ڈی ریل اور سپریم کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی کی کوشش ہے، کیا ہم توہین عدالت کی کارروائی کریں؟ درخواست گذار بیرسٹر عمیر خان نیازی کون ہیں؟
سجیل سواتی نے بتایاکہ درخواست گزار بیرسٹر عمیر خان نیازی کا تعلق پاکستان تحریک انصاف سے ہے،اس پر جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ کیا درخواست گزار نے پارٹی کی جانب سے مجاز ہونے کا سرٹیفکیٹ دیا؟
قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ اس کا مطلب ہے درخواست گزار عمیر نیازی الیکشن ہی نہیں چاہتے، تو کیا ہم توہین عدالت کا نوٹس جاری کریں؟ یہ تو سپریم کورٹ کے احکامات کی خلاف ورزی کی گئی ہے، الیکشن کمیشن افسران اور ڈپٹی کمشنرز بھی انتخابات نہ کرائیں تو کون کرائے گا؟
جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا الیکشن کمیشن نے سیاسی جماعتوں سے ریٹرننگ افسران لیے تھے؟ ملک بھر میں کتنے ڈی آر اوز اور آر اوز تھے؟ وکیل الیکشن کمیشن نے بتایاکہ ڈی آر اوز 148 اور ریٹرننگ افسران 859 ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر عدلیہ کے افسران انتخابات نہ کرائیں، الیکشن کمیشن اور ایگزیکٹو بھی نہ کرائے تو کون کرائے؟ اس سے تو بادی النظر میں انتخابات ملتوی کرانا ہی مقصد نظر آتا ہے، الیکشن کرانا کس کی آئینی ذمے داری ہے؟
چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ جج صاحب کو کہہ دیں وہ خود الیکشن کرالیں، نجانے عدلیہ کیسے حکم جاری کر رہی ہے، کیا یہ آرڈر دینے والے جج مس کنڈکٹ کے مرتکب نہیں ہوئے؟
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا عمیر نیازی نے ہائیکورٹ میں چیلنج کرنے سے پہلے الیکشن کمیشن کو درخواست دی؟ وکیل الیکشن کمیشن نے بتایا کہ پی ٹی آئی کے درخواست گزار کا کہنا تھا کہ ایگزیکٹو پر انتخابات کے حوالے سے اعتماد نہیں، نگران حکومت کے آتے ہی تمام افسران تبدیل کیے گئے تھے، عمیر نیازی کہتے ہیں کہ وہ پی ٹی آئی کے ایڈیشنل جنرل سیکرٹری ہیں۔
اس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ کل تو وہ کہیں گے ہمیں عدلیہ پر اعتماد نہیں، ان کے کہنے سے کیا ہوتا ہے۔
جسٹس سردار طارق مسعود نے استفسار کیا کہ نوٹیفکیشن معطل ہوا تو آپ نے تربیت کیوں روکی ہے؟ 7 دن کی تربیت ہوتی ہے ایک دن کی تربیت ہوچکی ہے، سپریم کورٹ نے انتخابات ڈی ریل کرنے سے روکا تھا، کون الیکشن کے راستے میں رکاوٹ ہے؟
چیف جسٹس نے پوچھاکہ عدلیہ سے ایسے احکامات آنا حیران کن ہے، الیکشن پروگرام کب جاری ہونا تھا؟ وکیل نے جواب دیا کہ آج الیکشن شیڈول جاری ہونا تھا،اٹارنی جنرل نے استفسار پر بتایا کہ معاونت کیلئے نوٹس تھا لیکن ایڈیشنل اٹارنی جنرل پیش ہوئے تھے، مجھے اس کیس کے بارے معلوم نہیں تھا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ لاہور ہائیکورٹ کے جج نے مس کنڈکٹ کیا ہے، سپریم کورٹ کی حکم عد ولی مس کنڈکٹ ہے، درخواست آئی لگ بھی گئی، حکم امتناع دینے والا جج ہی لارجر بینچ کا سربراہ بن گیا۔
بعد میں جاری کئے گئے فیصلہ میں سپریم کورٹ نے لاہور ہائیکورٹ کا آر اوز اور ڈی آر اوز سے متعلق فیصلہ معطل کر دیا اور درخواست ناقابل سماعت قرار دے دی۔
عدالت نے الیکشن کمیشن کو آج ہی انتخابی شیڈول جاری کرنے کا حکم دیا اور کہا کہ الیکشن کمیشن نے انڈرٹیکنگ دی کہ آج شیڈول جاری کردیا جائے گا۔
سپریم کورٹ نے عمیر نیازی کو الیکشن کمیشن کی درخواست پر نوٹس جاری کر دیا اور کہا کہ عمیرنیازی جواب دیں کہ کیوں نہ ان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے؟
عدالت نے الیکشن کمیشن کی اپیل باضابطہ سماعت کیلئے منظور کر لی اور وفاقی و صوبائی حکومتوں کو بھی نوٹس جاری کر دیے،عدالت نے سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دی۔
Comments are closed.