سیکیورٹی کے پیش نظر جیل ٹرائل چیئرمین پی ٹی آئی کے حق میں ہے، سائفر کیس فیصلہ

48 / 100

فائل:فوٹو

اسلام آباد: ہائیکورٹ نے سائفر کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست نمٹاتے ہوئے ٹرائل کورٹ سے رجوع کرنے کی ہدایت کی ہے جبکہ فیصلے میں لکھا ہے کہ سیکیورٹی کے پیش نظر جیل ٹرائل چیئرمین پی ٹی آئی کے حق میں ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے سائفر کیس کی جیل میں سماعت کے خلاف چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست ہدایات کے ساتھ نمٹا دی ہے۔

فیصلے میں لکھا کہ چیئرمین پی ٹی آئی خود اپنی سیکیورٹی کے حوالے سے متعدد بار خدشات کا اظہار کر چکے ہیں، بظاہر جیل ٹرائل کے معاملے پر کوئی بد نیتی نظر نہیں آئی۔ جیل ٹرائل پر تحفظات ہوں تو پٹیشنر ٹرائل کورٹ سے رجوع کر سکتے ہیں۔

سردار لطیف کھوسہ نے اپنے دلائل میں کہا کہ سابق وزیراعظم چیئرمین پی ٹی آئی اس ملک کے چیف ایگزیکٹو تھے اور چیف ایگزیکٹو کو اس کا حلف ایسی صورت حال میں اختیار دیتا ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کھوسہ صاحب یہ بتائیں کہ پاکستان میں امریکا کی طرح دستاویزات ڈی کلاسیفائیڈ کرنے کا کوئی قانون موجود ہے؟ لطیف کھوسہ نے بتایا کہ اس سائفر کو تو وفاقی کابینہ نے ڈی کلاسیفائیڈ کر دیا تھا، اس ملک میں لیاقت علی خان کا قتل ہوا جبکہ ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے ساتھ بھی جو ہوا وہ آپ کے سامنے ہے۔

لطیف کھوسہ نے بتایا کہ یہ سائفر امریکا میں سفیر اسد مجید نے دفتر خارجہ کو بھجوایا تھا، میرے دوست کہیں گے سیاسی بات کر رہا ہے، غزہ میں فلسطینیوں کا قتل عام جاری ہے، اسرائیل کے پیچھے امریکا ہے اور امریکا کو ہم نے سپر پاور خدا مان لیا ہے۔ ڈونل لو نے اس ملک کے وزیراعظم کو ہٹانے کے لیے دھمکی دی، یہ تسلیم شدہ ہے یہ پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت تھی۔ پاکستان نے امریکا سے احتجاج کیا اور میں نے جب یہ کیس دیکھا تو حیران رہ گیا۔

سردار لطیف کھوسہ نے وزیر اعظم کا حلف نامہ عدالت کے سامنے پڑھا۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے بتانا ہے آپ کے ملک کو کوئی خطرہ تو نہیں ہے، یہ خود وزیر اعظم نے جج کرنا ہے کہ ملک کو کسی ایکٹ سے کوئی خطرہ تو نہیں۔

وزراء کا حلف بھی سردار لطیف کھوسہ نے عدالت کے سامنے پڑھا۔ عدالت نے استفسار کیا کہ آپ یہ کہہ رہے ہیں وہ جو درست سمجھتا ہے تو وہ اس کو ڈسکلوز کر سکتا ہے؟

وکیل سردار لطیف کھوسہ نے کہا کہ جی بالکل وزیراعظم جو درست سمجھتا ہے وہ ڈسکلوز کر سکتا ہے، پی ڈی ایم غلام رہنا چاہتی ہے تو رہے یہ ان کا سیاسی ہتھیار ہے۔عدالت نے سردار لطیف کھوسہ کو کسی جماعت کا نام لینے سے روک دیا۔

وکیل سردار لطیف کھوسہ نے کہا کہ یہ معاملہ نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کی میٹنگ میں جاتا ہے اور کمیٹی میں فیصلہ ہوتا ہے کہ امریکا سے سفارتی احتجاج کیا جائے گا۔ اس دوران وزیر اعظم کی ڈونلڈ لو کے کہنے پر چھٹی کرا دی جاتی ہے، وزیراعظم شہباز شریف کی سربراہی دوبارہ نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کی میٹنگ ہوئی۔

لطیف کھوسہ نے کہا کہ بھٹو صاحب کو بھی مولوی مشتاق کی کورٹ میں جنگلے میں لا کر کھڑا کیا گیا تھا، یہاں چیئرمین پی ٹی آئی کو بھی جنگلے میں لے کر آئے، ان کو ڈر کس چیز کا ہے کیا خوف ہے وہ سابق وزیراعظم ہیں، سابق وزیر اعظم کے حقوق ہیں، یہ اعظم خان کا بیان لیکر آگئے ہیں جو تین ہفتے لاپتہ رہا، یہ کہنا کہ چیئرمین پی ٹی آئی سائفر لے گیا یہ مضحکہ خیز ہے۔

وکیل عمران خان نے کہا کہ انہوں نے ہمیں کچھ نہیں دیا اب کہہ رہے ہیں کل چارج فریم کرنے ہیں، ا?پ نے دیکھنا ہے پہلے بھی ہمارے ساتھ ہمایوں دلاور نے کیا کیا ہے اور ہم یہ کہتے ہیں طاقت کا سر چشمہ عوام ہیں، ریاست کا مطلب ہے پارلیمنٹ، صوبائی اسمبلیز اور لوکل گورنمنٹس ہیں، ہم نے حکومت کو ریاست بنا دیا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ حکومت اور ریاست کو ہم نے گڈ مڈ کر دیا ہے۔

وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ کچھ اختیار مقتدر حلقوں نے لے لیا ہے، اعلیٰ عدلیہ سے قوم توقعات رکھتی ہے اور مجھے امید ہے آپ شہریوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے کھڑے ہوں گے، سائفر کیس میں سیکشن 5 کا اطلاق نہیں ہوتا، میں نے کہا سازش سے نکالا اور پی ڈی ایم کا موقف تھا عدم اعتماد کرکے نکالا، سائفر میرے پاس نہیں ہے وہ موجود بھی وزارت خارجہ میں ہے، انہوں نے ایف آئی آر میں کوڈ لکھا ہے انہوں نے خلاف ورزی کی ہے، کس نے ان کو کہا تھا کوڈ ایف آئی آر میں لکھیں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کے دلائل کا خلاصہ یہ ہے نا ایکٹ کا اطلاق ہوتا ہے نا سیکشن 5 کا؟

عمران خان کے وکیل نے کہا کہ جی بالکل نا ایکٹ کا اطلاق ہوتا ہے نا سیکشن 5 کا اطلاق ہوتا ہے، یہ ممنوعہ جگہ نہیں ہے اگر ملک کے خلاف کوئی سازش ہو تو عوام کو بتانا وزیراعظم کا کام ہے، یہاں انہوں نے بڑی آسانی سے اعلان کر دیا کہ سزا موت بھی ہو سکتی ہے۔

ایف آئی آر میں لگائی گئی دفعات سے متعلق سردار لطیف کھوسہ نے پڑھا۔ انہوں نے کہا کہ ٹرائل کورٹ نے آرڈر میں دھمکی بھی لگائی ہوئی ہے، انگریزی تو جیسی بھی ہے میری بھی انگریزی ایسی ہے اور ٹرائل کورٹ کی انگریزی بھی ایسی ہی ہے۔

عدالت نے مسکراتے ہوئے ریمارکس دیے کہ انگریزی سب کی اسی طرح ہی ہے۔ وکیل سردار لطیف کھوسہ نے کہا کہ سائفر کے لفظ کا ذکر آفیشل سیکرٹ ایکٹ میں نہیں ہے صرف کوڈ کی بات کرتے ہیں۔

سردار لطیف کھوسہ نے تحریری دلائل بھی عدالت میں جمع کرا دیے۔

چیف جسٹس نے لطیف کھوسہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے دلائل میں تین نکات عدالت کے سامنے رکھے ہیں، پہلی بات آپ کہہ رہے ہیں آرٹیکل 248 کا استثنیٰ حاصل ہے، دوسرا پوائنٹ آپ کا یہ ہے کہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ اور سیکشن 5 کا اطلاق نہیں ہوتا اور تیسرا پوائنٹ آپ کا یہ ہے کہ وزیر اعظم کی ذمہ داری تھی کہ پبلک کے ساتھ شیئر کرتے۔

وکیل سردار لطیف کھوسہ نے کہا کہ ایک پوائنٹ یہ بھی ہے سائفر کابینہ میٹنگ میں ڈی کلاسیفائی ہو چکا تھا، بدنیتی کی بنیاد پر یہ کیس بنایا گیا اور 10ہزار پی ٹی آئی کے لوگ گرفتار کیے گئے، چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف مقدمے بنانے کی سنچری مکمل کی گئی۔

وکیل عمران خان نے مسکراتے ہوئے کہا کہ اب بھی ورلڈ کپ ہو رہا ہے آج بھی یاد آتا ہے کیسے ورلڈ کپ جیتا گیا تھا، اگر آئندہ سماعت کے لیے جانا ہے تو عدالت کارروائی اسٹے کر دے، پہلے بھی ہمارے لیے دوسرے کیس میں ٹھیک نہیں ہوا۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ آپ ڈی بی کے بعد آجائیں ابھی ساڑھے گیارہ بج گئے ہیں۔ لطیف کھوسہ کے دلائل مکمل ہوگئے۔

Comments are closed.