پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ نافذ، مخالف درخواستیں مسترد،سابق فیصلوں پر اپیل کا حق ختم

54 / 100

فائل:فوٹو

اسلام آباد: پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ نافذ، مخالف درخواستیں مسترد،سابق فیصلوں پر اپیل کا حق ختم، سپریم کورٹ کے فُل کورٹ بینچ نے چیف جسٹس کے اختیارات سے متعلق ’پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ‘ کو برقرار رکھتے ہوئے اس کے خلاف دائر درخواستیں مسترد کر دی ہیں،چیف جسٹس فیصلہ دینے والے اکثریت ججز میں شامل ہیں.

سابق چیف جسٹس کا اختیار ختم کرنے کیلئے
یہ قانون پی ڈی ایم کی حکومت نے پارلیمان سے منظور کرایا تھا کیونکہ حکومت کواعتراض تھا کہ سابق چیف جسٹس عمرعطا بندیال اپنی مرضی کا بینچ بناتے ہیں جس میں مخصوص ججز شامل ہوتے ہیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو پی ڈی ایم حکومت کے بنائے اس قانون پھر اعتراض نہیں ہے، اس قانون کے خلاف مختلف درخواستیں دائر کی گئی تھیں اور سابق چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ نے ان درخواستوں کو منظور کرتے ہوئے قانون کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔

بدھ کو سپریم کورٹ نے ان اپیلوں کو مسترد کرتے ہوئے اس قانون کو درست قرار دے دیا،
اس قانون کے تحت ازخود نوٹس پر فیصلے کے خلاف اپیل کا حق دیا گیا تھا جسے سپریم کورٹ کے فیصلے میں درست قرار دیا ہے تاہم اپیل کا یہ حق ماضی کے فیصلوں کے خلاف نہیں ہوگا.

اکثریت نے ماضی کے فیصلوں کیخلاف اپیل کا حق نہ دیا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس سردار طارق مسعود اور جسٹس منصورعلی شاہ سمیت 7 ججوں نے ماضی سے اطلاق کی حمایت کی، اس کے علاوہ فل کورٹ نے 6-9 کے تناسب سے ازخود نوٹس ( 184/3) کے کیسزمیں اپیل کے حق کی شق کو برقرار رکھا ہے۔

بدھ کو سپریم کورٹ کے فُل کورٹ بینچ کے سربراہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے چیف جسٹس بننے کے بعد اپنا پہلا فیصلہ سنایا جو سابق پی ڈی ایم حکومت کے حق میں آیا ہے. 

’فل کورٹ کے 15 میں 10ججوں نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کو برقرار رکھنے کی حمایت جبکہ پانچ ججز نے اس کی مخالفت کی ہے۔‘

جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس مظاہرعلی نقوی اور جسٹس شاہد وحید نے ایکٹ کی مخالفت کی، چیف جسٹس سمیت باقی ججز نے ایکٹ کے حق میں فیصلہ دیا اور سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجرایکٹ کے خلاف دائر درخواستیں مسترد کردیں۔

ایکٹ کے تحت اب آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تمام مقدمات کے لیے بینچ چیف جسٹس کے علاوہ سپریم کورٹ کے دیگر دو سینیئر ترین ججوں پر مشتمل کمیٹی تشکیل دیا کرے گی۔

 اس سے قبل سپریم کورٹ فل بنچ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا، چیف جسٹس نے کہا کہ اگر آج اتفاق ہو گیا تو آج ہی فیصلہ سنائیں گے نہ ہوا تو فیصلہ محفوظ ہے.

فیصلہ محفوظ ہونے سے پہلے اٹارنی جنرل کے دلائل

بدھ کو سماعت میں اٹارنی جنرل کی جانب سے دلائل دیے، چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ کیس نے سماعت کی۔

اٹارنی جنرل نے روسٹم پر آکر اپنے دلائل میں کہا کہ تحریری جواب کی بنیاد پر دلائل دوں گا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ یہ کہہ رہے ہیں آپ سب باتیں دہرائیں گے نہیں ہائی لائٹ کریں گے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ تین سوالات اٹھائے گئے تھے جن کا جواب دوں گا،  میں آرٹیکل 191 اور عدلیہ کی آزادی کی بات کروں گا، آئین میں کئی جگہوں پر سبجیکٹ ٹو لا کی اصطلاح آئی اور پرائیویسی کا حق بھی سبجیکٹ ٹو لا رکھا گیا، کس نوعیت کا قانون ہوگا یہ نہیں بتایا گیا۔

انہوں نے دلائل میں کہا کہ سب سے پہلے ماسٹر آف روسٹر کے نکتہ پر دلائل دوں گا، 1956 کے رولز پر بھی عدالت میں دلائل دوں گا، اختیارات کی تقسیم اور پارلیمان کے ماسٹر آف روسٹر کے اختیار لینے پر دلائل دوں گا، فل کورٹ کی تشکیل اور اپیل کے حق سے محروم کرنے کے حوالے سے بھی دلائل دوں گا اور جو کہا جا چکا اس کو نہیں دہراؤں گا۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 14,20,22,28 میں دیے گئے حقوق قانون کے مشروط ہیں، رائٹ ٹو پرائیویسی کو قانون کے ذریعے ریگولیٹ کیا گیا ہے، آرٹیکل 191 سے پارلیمنٹ کو قانون سازی کا اختیار ملتا ہے اور آئین کا کوئی آرٹیکل پارلیمان سے قانون سازی کا اختیار واپس نہیں لیتا، جب سے آئین بنا ہے آرٹیکل 191 میں کوئی ترمیم نہیں ہوئی اور اس میں ترمیم نہ ہونا عدلیہ کی آزادی کو یقینی بنانا ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ آرٹیکل 191 میں لاء کا لفظ باقی آئینی شقوں میں اس لفظ کے استعمال سے مختلف ہے؟

اٹارنی جنرل نے دلائل میں کہا کہ سنگین غداری کے قانون اور رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ میں قانون سازی کا اختیار آئینی شقوں سے لیا گیا، ان قوانین میں پارلیمنٹ نے فیڈرل لیجسلیٹیو لسٹ پر انحصار نہیں کیا تھا، آرٹیکل 191 پارلیمنٹ کا حق قانون سازی ختم نہیں کرتا، پارلیمنٹ نے عدلیہ کی آزادی دی ہے مگر اپنا حق قانون سازی بھی ختم نہیں کیا۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ 1973 سے پہلے رولز بنانے کا اختیار گورنر جنرل یا صدر کی پیشگی اجازت سے مشروط تھا، آرٹیکل 8 کہتا ہے ایسی قانون سازی نہیں ہوسکتی جو بنیادی حقوق واپس لے۔

Comments are closed.