فیض آباد دھرنا نظرثانی درخواستیں 4 سال5 ماہ بعد سماعت کےلئے مقرر

51 / 100

فوٹو: فائل

اسلام آباد:فیض آباد دھرنا نظرثانی درخواستیں 4 سال5 ماہ بعد سماعت کےلئے مقرر،سپریم کورٹ 28 ستمبر کو نظرثانی درخواستوں پر سماعت کرے گی۔

فیض آباد دھرنا نظر ثانی کیس سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ فیض آباد نظر ثانی بینچ کی سربراہی کرینگے،جسٹس امین الدین خان، جسٹس اطہر من اللہ بینچ میں شامل ہیں۔

وزارت دفاع نے فیض آباد دھرنے سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف نظرثانی کی اپیل دائر کر رکھی ہے جس میں عدالتِ عظمیٰ سے فوج اور اس کے خفیہ اداروں سے متعلق فیصلے میں لکھی جانے والی سطروں کو واپس لینے کی درخواست کی گئی ہے۔

وزارت دفاع نے فیض آباد دھرنے سے متعلق سپریم کورٹ کے 6 فروری 2019کے فیصلے کے خلاف نظرثانی کی اپیل دائر کررکھی ہے جس میں عدالتِ عظمیٰ سے فوج اور اس کے خفیہ اداروں سے متعلق فیصلے میں لکھی جانے والی سطروں کو واپس لینے کی درخواست کی گئی ہے۔

اس وقت کے جسٹس قاضی فائز عیسٰی اور جسٹس مشیر عالم پر مبنی دو رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی تھی۔ دو رکنی بینچ نے 43 صفحات پرمشتمل فیصلہ دیا تھا۔

فیصلے میں کہا گیا تھا کہ ریاست کو غیر جانبدار اور منصفانہ ہونا چاہیے، قانون کا اطلاق سب پر ہونا چاہیے، چاہے وہ حکومت میں ہوں یا اداروں میں، آزادانہ کام کرنا چاہیے۔

سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں کہا تھا کہ حکومت کا کوئی بھی ادارہ یا ایجنسی اپنے مینڈیٹ سے تجاوز نہ کرے، کسی بھی ایجنسی یا ادارے کو آزادی اظہار پر پابندی لگانے، ٹی وی نشریات، اخبارات کی اشاعت میں مداخلت کا اختیار نہیں۔

عدالت نے ازخود نوٹس کیس کے فیصلے میں وزارت دفاع کو حلف کی خلاف ورزی کے مرتکب مسلح افواج کے افسران کے خلاف کارروائی کی ہدایت کی تھی۔

جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے میں پی ٹی آئی اور ایم کیو کیو ایم کے خلاف آبزرویشن بھی دی تھی، اور کہا تھا کہ سانحہ 12 مئی پر ذمہ داروں کے خلاف کارروائی نہ کرنے سے تشدد کے ذریعے ایجنڈے کے حصول کی حوصلہ افزائی ہوئی.

قتل، اقدام قتل میں ملوث حکومت میں شامل بڑے افراد کے خلاف کارروائی نہ کرنے سے بری مثال قائم ہوئی اور تشدد کے ذریعے ایجنڈے کے حصول کی حوصلہ افزائی ہوئی۔

فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلےکے بعد جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے خلاف ریفرنس بھی دائر کیا گیا تھا،پی ٹی آئی اور شیخ رشید کی جانب سے نظرثانی درخواست دائر کی گئی تھی۔

یاد رہے کہ تحریک لبیک پاکستان نے آئینی ترمیم الیکشن بل 2017 میں حلف نامے کے الفاظ کو تبدیل کیے جانے پر نومبر 2017 میں اسلام آباد میں فیض آباد کے مقام پر 22 روز تک دھرنا دیا تھا۔

مظاہرین کے خلاف ایک آپریشن بھی کیا گیا، جس کے بعد ایک معاہدے کے بعد دھرنا اختتام پذیر ہوا، مظاہرین کے مطالبے کے بعد اُس وقت کے وزیر قانون زاہد حامد کو عہدے سے استعفیٰ دینا پڑاتھا۔

دھرنا کے بعد بتایا گیاتھا کہ اس دھرنے میں اسلام آباد پولیس کا کُل خرچہ 19 کروڑ 55 لاکھ روپے آیا جب کہ میٹرو اسٹیشن کی توڑ پھوڑ اور بندش کے باعث قومی خزانے کو 6 کروڑ 60 لاکھ روپے کا نقصان بھی ہوا ،اس پرسپریم کورٹ نےازخودنوٹس لیا تھا۔

Comments are closed.