سپریم کورٹ کا تجربہ تلخ و شریں تھا،سپریم کورٹ کو جارحانہ اور مخاصمانہ ماحول میں کام کرنا پڑا،چیف جسٹس

45 / 100

فائل:فوٹو
اسلام آباد:چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطاء بندیال کاکہناہے کہ سپریم کورٹ کا تجربہ تلخ و شریں تھا،تلخ سیاسی تنازعات کے باعث زیر التوا مقدمات کی تعداد بڑھ گئی،سپریم کورٹ کو جارحانہ اور مخاصمانہ ماحول میں کام کرنا پڑا،گڈ ٹو سی یو والے ریمارکس کو بھی پس منظر سے ہٹ کر رپورٹ کیا گیا،تیرہ سے سولہ گھنٹے سرکاری وقت سے بڑھ کر کام کیا۔

نئے عدالتی سال کی تقریب سے خطاب میں چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہو سکتا ہے یہ میرا آخری خطاب ہو،میری نامزد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے مختلف رائے ہو سکتی ہے،نامزد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ قابل تعریف انسان ہیں، میڈیا معاشرے کی آنکھیں اور کان ہیں،میرے حوالے سے میڈیا میں غلط رپورٹنگ بھی کی گئی،گڈ ٹو سی یو والے میرے جملے کو غلط رنگ دیا گیا،شارٹ اینڈ سویٹ ججمنٹ بارے آبرزویشن دی جس پر غلط رپورٹنگ ہوئی،جو ہوا میں اس کو درگزر کرتا ہوں۔

چیف جسٹس نے مزیدکہا کہ سپریم کورٹ کا تجربہ تلخ و شریں تھا،تلخ سیاسی تنازعات کے باعث زیر التوا مقدمات کی تعداد بڑھ گئی،سپریم کورٹ کو جارحانہ اور مخاصمانہ ماحول میں کام کرنا پڑا،آڈیو لیکس انکوائری کمیشن متعلق آخری فیصلے میں ماحول کی وضاحت کردی تھی،مشکل وقت میں آئین کی حفاظت کی،کوئی بھی نوے دن کے اندر انتخابات کے انعقاد کا مخالف نہیں،سیاسی مخاصمت آئینی بحث پر حاوی ہو جاتی ہے۔

چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ سپریم کورٹ سے توقعات کے سامنے قانونی رکاوٹیں حائل ہیں،ازخود نوٹس اختیارات سے متعلق طریقہ کار ایک عدالتی فیصلے میں وضع کر دیا ہے، 9مہینوں میں صرف ایک ازخود نوٹس لیا،ازخود نوٹس اختیارات سے متعلق نئے چیف جسٹس پاکستان سے بہتر طریقہ کار کی توقع ہے،مختصر اور شیریں فیصلے والے ریمارکس کو غلط رنگ دیکر طنزیہ الفاظ میں پیش کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ گڈ ٹو سی یو والے ریمارکس کو بھی پس منظر سے ہٹ کر رپورٹ کیا گیا،تیرہ سے سولہ گھنٹے سرکاری وقت سے بڑھ کر کام کیا،ملک میں سیاسی استحکام سے ہی مجموعی استحکام آئے گا،ویڈیو لنک کے زریعے مقدمات کی سماعت میں اضافہ ہوا،تنازعات کے حل کے متبادل زرائع سے پچاس فیصد مقدمات میں کمی ہوگی،ڈیمز فنڈز میں 18اشاریہ چھ ارب روپے سرکاری اسکیم میں ڈالا ہے، گزشتہ ماہ ڈیم فنڈز میں چار لاکھ روپے جمع ہوئے،میڈیا معاشرے کی آنکھ اور کام ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ میڈیا کی غلطیاں درگزر کرتے ہیں،آزاد خیال ججز میں اختلاف رائے عدلیہ کی خوبصورتی ہے،آج سپریم کورٹ انتہائی آزاد ہے،عدلیہ کی موجودہ آزادی ہر شہری کیلئے باعث فخر ہے۔

انہوں نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور میرے بیچ اختلاف رائے رہا، میں اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ زندگی کو مختلف زاویوں سے دیکھتے ہیں،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ قابل تعریف انسان ہیں،میں ججز اور میڈیا کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہاگزشتہ سال عدالت کی ایک سالہ کارکردگی پر روشنی ڈالی تھی،تعیناتی کے ایک سال میں سپریم کورٹ نے ریکارڈ 23 ہزار مقدمات نمٹائے،اس سے پہلے ایک سال میں نمٹائے گئے مقدمات کی زیادہ سے زیادہ تعداد 18 ہزار تھی،کوشش تھی کہ زیرالتواء مقدمات 50 ہزار سے کم ہوسکیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ زیرالتواء مقدمات کی تعداد میں دو ہزار کی کمی ہی کر سکے،فروری 2023 میں سپریم کورٹ کے سامنے کئی آئینی مقدمات آئے،آئینی ایشوز میں الجھا کر عدالت کا امتحان لیا گیا،سخت امتحان اور ماحول کا کئی مرتبہ عدالت خود شکار بنی،جو واقعات پیش آئے انہیں دہرانا نہیں چاہتا لیکن اس سے عدالتء کارکردگی متاثر ہوئی۔

Comments are closed.