نیب ترامیم سے بلاواسطہ حقوق متاثر ہونے کا پہلو ضرور ہے،چیف جسٹس

45 / 100

فائل:فوٹو

سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کیخلاف کیس ،جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے مجھے یوں محسوس ہو رہا ہے زور لگا لگا کر نیب ترامیم میں غلطی ڈھونڈی جا رہی ہے،ملک میں پارلیمنٹ اور عدلیہ کو اپنے اپنے طریقے سے چلنے دیں، اس وقت عام انتخابات سر پر ہیں،میرے زہن میں ایک ہی حل ہے، نیا پارلیمنٹ آکر ترامیم کو ختم کردے۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا نیب ترامیم سے براہ راست بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہوئی، نیب ترامیم سے بلاواسطہ حقوق متاثر ہونے کا پہلو ضرور ہے۔

نیب ترامیم کیخلا ف کیس کی سماعت چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی بنچ نے کیس کی سماعت کی۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا ایم ایل اے کے تحت حاصل شوائد کی حیثیت ختم کر دی گئی۔حکومتی وکیل مخدوم علی خان نے جواب دیا ایف بی آر کو بیرون ممالک سے اثاثوں کی تفصیلات موصول ہوجاتی ہیں،بیرون ملک سے لائے گئے شواہد بھی ثابت کرنا نیب کی ہی ذمہ داری ہے۔

دوران سماعت جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا پارلیمانی جمہوری نظام آئین پاکستان کا مرکزی جزو ہے،کہا جا رہا ہے ایک پارلیمنٹ نے اپنے اور اہل خانہ کو فائدہ پہنچانے کیلئے قانون سازی کی، مجھے یوں محسوس ہو رہا ہے زور لگا لگا کر نیب ترامیم میں غلطی ڈھونڈی جا رہی ہے،ملک میں پارلیمنٹ اور عدلیہ کو اپنے اپنے طریقے سے چلنے دیں، اس وقت عام انتخابات سر پر ہیں،

جسٹس منصور علی شاہ نے مزید کہا کہ میرے زہن میں ایک ہی حل ہے، نیا پارلیمنٹ آکر ترامیم کو ختم کردے،ورنہ ایسے تو پورا نظام ہی ختم جائے گا، حل تو صرف یہی ہے ایسے لوگوں کو دوبارہ ووٹ ہی نہ دیں،ایسے لگ رہا ہے کہ زور لگا لگا کر تھک گئے کہ نیب ترامیم میں غلطی نکلے لیکن نہیں مل رہی، کچھ چیزوں کو فطرت پر بھی چھوڑیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے نیب قانون کو کاروباری شخصیات کیخلاف غلط استعمال کیا گیا۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا پارلیمنٹرین عوام کا امین ہوتا ہے، سب سے بڑی خلاف ورزی تو یہ ہے کہ کیسے ایک شخص اپنی مرضی سے پارلیمنٹ چھوڑ کر چلا گیا۔وکیل درخواست گزار نے کہا یہ سیاسی فیصلہ ہوتا ہے کہ پارلیمنٹ میں بیٹھنا ہے یا چھوڑنا ہے۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا پارلیمنٹ کا فورم موجود تھا، کیسے اپنی حلقے کی نمائندگی چھوڑ دی؟ درخواست گزار کی نیک نیتی کیا ہے؟۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کئی لوگوں کے پاس منشیات اور دیگر ذرائع سے حاصل داغدار پیسہ موجود ہے،داغدار پیسے کا تحفظ کر کے سسٹم میں بہت سے لوگوں کو بچایا جاتا ہے،ریاست کی ذمہ داری ہے کہ منصفانہ اوشفاف معاشرہ قائم کرے، ریاست نے یقینی بنانا ہے کہ مجرمان آزادنا گھومیں،معاشی مواقع چھیننے کی وجہ سے لوگ ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں،معیشت کے شعبے کو سیاسی طاقتوروں کے لیے مختص کر دیا گیا ہے،آڈیٹر جنرل اہم آئینی ادارہ ہے۔

چیف جسٹس نے کاکہا کہ مضبوط آڈیٹر جنرل آفس صوبوں کے اکاوٴنٹس کو بھی دیکھ سکتا ہے،نیب ترامیم سے براہ راست بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہوئی، نیب ترامیم سے بلاواسطہ حقوق متاثر ہونے کا پہلو ضرور ہے،بری طرز ہوگی یا مجرمانہ معاشرہ ہوگا تو لوگ چلے جائیں گے۔

بعدازاں عدالت نے نیب ترامیم کیخلا ف پانچ ستمبر تک ملتوی کرتے ہوئے وکیل درخواست گذار خواجہ حارث کو تحریری دلائل جمع کرانے کا حکم دیدیا۔

Comments are closed.