اینٹی بائیوٹکس کی بھرمار سے ادویہ بےاثرہونے سے بچوں کی صحت متاثر ہوسکتی ہے،تحقیق
فوٹو: فائل
لندن: اینٹی بائیوٹکس کی بھرمارکا اثر بچوں کے جین پر بھی پڑتاہے جو کئی تحقیقات میں سامنے آیا ہے۔ لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ ادویہ بےاثرہونے سے بچوں کی صحت متاثر ہوسکتی ہے۔ اگلا انفیکشن ان میں مزید مشکلات لاسکتا ہے۔
غریب اور ترقی پذیرممالک میں بچوں کو غیرمعیاری، غلط اور ضرورت سے زائد اینٹی بایوٹکس ادویہ دی جارہی ہیں۔ اس سے نہ صرف آنتیں اور معدہ متاثرہورہا ہے بلکہ بچوں میں اینٹی بایوٹکس سے مزاحمت بھی پیدا ہورہی ہے۔
اینٹی مائیکروبئیل ریزسٹنس سے وابستہ جراثیم دنیا بھر کے بچوں کو بیمارکررہے ہیں اور علاج کو مہنگا و مشکل بھی بنارہے ہیں۔ یہ تحقیق پبلک لائبریری آف سائنس (پی ایل او ایس) کی حالیہ اشاعت میں شامل ہے۔
اس تحقیق میں غریب اور ترقی پذیر ممالک میں دو سال سے کم عمر بچوں کے بہت سے ٹرائلز، مطالعوں اور تحقیق کو دیکھا گیا ہے۔ بالخصوص بچوں کی آنتوں میں صحت مند بیکٹیریا کی ترکیب بگڑجاتی ہے اور دھیرے دھیرے بچوں کا بدن معیاری اینٹی بایوٹکس کا اثر لینا بند کردیتا ہے اور یوں ان میں دوا سے مزاحمت پیدا ہوجاتی ہے۔
اس مطالعے میں کل 2700 سے زائد تحقیقات کا بغور جائزہ لیا لے کر اس کا میٹا تجزیہ کیا گیا ہے۔ بچوں کے علاج کے لیے کلنڈامائسین اور میٹرونیڈیزول کی بجائے ایزیتھرمائسین(اے زیڈ آئی) دی گئی تھیں۔ اگرچہ یہ دوا بچوں کی ہلاکت روکتی ہے لیکن اس کے منفی اثرات ہوسکتےہیں۔
اس کے علاوہ سی ٹی ایکس اور اے ایم ایکس درجے کی اینٹی بایوٹکس کا جائزہ بھی لیا گیا ہے۔ معلوم ہوا کہ اے زیڈ آئی کی چند خوراک یا چند کورس سے ہی بچوں کے معدے میں خردنامیاتی تنوع (مائیکروبایوٹا ڈائیورسٹی) کو تبدیل کرنا شروع کردیا۔
اس کےعلاوہ اینٹی بایوٹکس کی بھرمارکا اثر بچوں کے جین پر بھی پڑا ہے جو کئی تحقیقات میں سامنے آیا ہے۔ لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ ادویہ بےاثرہونے سے بچوں کی صحت متاثر ہوسکتی ہے۔ اگلا انفیکشن ان میں مزید مشکلات لاسکتا ہے۔
اگرچہ مزید تحقیق کی ضرورت ہے لیکن مطالعے کے مطابق معدے اور آنتوں میں قدرتی بیکٹیریا کی تعداد بگڑنے سے امنیاتی نظام متاثر ہوتا ہے اور یوں دوا کا اثر ختم ہوسکتا ہے۔
Comments are closed.