عزیز از جان جو اب نہ رہا
محسن رضا
کسی زمانے میں ہمارے عزیز از جان دوست راجہ مشتاق احمد منہاس کے باغ میں ضمنی انتخاب میں حصہ لینے میں کافی دلچسپی رہی مریم نواز شریف اور رانا ثنااللہ نے ان کے انتخابی جلسوں سے خطاب بھی کیا اور کامیابی کے لئے دیگر اقدامات بھی کئے۔
مریم نواز نہ صرف ماضی کے حلیف مسلم کانفرنس کے صدر سردار عتیق احمد سے ملیں، اُن کے امیدوار کو مشتاق منہاس کے حق میں دستبردار کرایا بلکہ سابق صدر و وزیراعظم سردار عبدالقیوم کے مزار پر گئیں اور چادر چڑھائی۔
دوسری طرف پیپلز پارٹی کے امیدوار ضیا القمر کے لئے بلاول بھٹو نے جلسہ سے خطاب ہی نہ کیا بلکہ تین دن وہ کشمیر میں رہے۔ وسطی باغ کی یہ نشست پیپلز پارٹی نے جیت لی، جس خوش دلی سے مشتاق منہاس نے اپنی ہار کو تسلیم کیا اور مخالف کامیاب امیدوار کو مبارک باد دی ایسا ہمارے سیاسی لوگ کم کم ہی کرتے ہیں۔
فتنہ خان کے سیاسی فضا میں زہر گھولنے کے بعد سیاسی ماحول انتہائی متعفن اور خراب ہوچکا تھا، مشتاق کا یہ اقدام ہوا کے تازہ جھونکے کی مانند ہے۔
پورے پاکستان نے مشتاق منہاس کے شکست کو فتح کی طرح قبول کرنے کے انداز کی تحسین کی۔
مشتاق منہاس اشرافیہ کا حصہ بن چکا ہے لہذا اس کا رہن سہن اور میل ملاپ بھی بلڈی سویلین یا ہمارے جیسے ہمدم دیرینہ سے کم ہوگیا ہے ۔
منہاس بہت محنتی اور قسمت کا دھنی ہے نیشنل پریس کلب کا صدر بنا اورنجی چینل آج میں سید طلعت حسین کی نظر کرم سے استادوں کے استاد نصرت جاوید کے ساتھ بولتا پاکستان پروگرام شروع کیا اور شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گیا۔
پروگرام کا فارمیٹ نوک جھونک کا تھا تو مشتاق کو مسلم لیگ نون کا دفاع کرنا ہوتا تھا اسی دفاع دفاع میں مشتاق منہاس شریف فیملی میں پسند کیا جانے لگا ۔آزاد کشمیر میں مسلم لیگ ن بنانے کا آئیڈیا بیرسٹر سلطان نے لارڈ نزیر کے ذریعے میاں نواز شریف سے ڈسکس کیا تھا، مگر بولتا پاکستان کے مشتاق نے میاں برادران کی زیادہ قربت حاصل کرلی۔
سردار عتیق کی مسلم کانفرنس میں سے مسلم لیگ ن آزاد کشمیر نے جنم لیا اور 2016 کے آزاد کشمیر کے عام انتخابات میں معرکہ مارا کشمیر کے جہاندیدہ اور جرات مند رہنما راجہ فاروق حیدر خان وزیر اعظم اور مشتاق منہاس وزیر اطلاعات بنے اور یوں ان کا ہمارے جیسے غیر ریاستی صحافیوں سے رابطہ منقطع ہوگیا
اس کے بعد جنرل فیض حمید کی نگرانی میں ہونے والے انتخابات میں پی ٹی آئی کاجادو یا فرشتوں کے منتر کی چھڑی چل گئی،
شو مئی قسمت ارب پتی تاجر سردار تنویر الیاس چغتائی باغ کی اس نشست سے امیدوار بنے جو گزشتہ عام انتخابات میں مشتاق منہاس نے بھاری اکثریت سے جیتی تھی۔
سابق امیر جماعت اسلامی آزاد کشمیرعبدالرشید ترابی بھی جماعت اسلامی کے آزاد کشمیر کے نظم کی اجازت کے بغیر تنویر الیاس کے حق میں دستبردار ہوکر جماعت اسلامی میں اپنے مقام اور احترام کو کھو بیٹھے۔
اُن کے مخالفین بھی اُن پر مال لیکر ایسا کرنے کا الزام نہیں لگاتے مگر جناب ترابی کے قریبی لوگوں پر بھی یہ عُقدہ نہ کھلا کہ دستبرادی کے درپردہ کہانی کیا ہے؟
سینٹورس اسلام آباد کے مالک سردار تنویر الیاس نے انتخابات میں بوریوں کے منہ کھول دئیے تھے مجھ کو اب بھی یہی خوش گمانی ہے کہ جماعت اسلامی آزاد کشمیر کا سابق امیر چمک سے متاثر نہیں ہوا ہوگا لیکن بد اصولی کے تمام ریکارڈ رشید ترابی نے توڑ کر جماعت اسلامی کے بہترین نظم میں بھی دراڑیں ڈال دیں۔
رشید ترابی ہمیشہ سردار سکندر حیات کے
قریب رہے، ایک بار مسلم کانفرنس سکندر گروپ اور راجہ ممتاز حسین راٹھور سے اتحاد کیا تو ہمارے محسن اور آزاد کشمیر کی سییاست کے سلطان صحافت سلطان سکندر نے اس اتحاد کو اتحاد ثلاثہ راجگان قرار دیا تھا۔
ہمارے دوست سلطان سکندر جو آزاد کشمیر کی سیاست کو سمجھنے والے صحافیوں میں سرفہرست ہیں اُن کو تبصرہ بلاوجہ نہیں ہوگا۔
اسی طرح 2016 کے انتخابات میں بھی ترابی صاحب نے مسلم لیگ ن کا ساتھ دیا اور راجہ فاروق حیدر نے جان پر کھیل کر وعدہ نبھایا اور امیر جماعت اسلامی کو ٹیکنوکریٹ کی مخصوص نشست پر منتخب کروایا، رشید ترابی کے مطالبے پر اسوقت کے کور کمانڈر کراچی ہمایوں عزیز کی ہمشیرہ کو بھی خواتین کی مخصوص نشست دی۔
میاں نواز شریف کے اس بارے میں تحفظات تھے وہ جماعت اسلامی پر فاروق حیدر کی نوازشات کے حق میں نہ تھے کیونکہ پاکستان جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق میاں نواز شریف کے مخالف تھے۔ وزیراعظم نواز شریف کے سیاسی امور کے سیکیریٹری آصف کرمانی ترابی کی بجائے مسلم لیگی عبدالخالق وصی اور کسی اور “خاص خاتون”کے کاغذات نامزدگی تک داخل کرواچکے تھے۔
مخصوص نشستوں کے انتخاب سے قبل یہ آخری رات تھی جب راجہ فاروق حیدر مظفرآباد سے اسلام آباد پہنچے اور جرات و دلیل سے کرمانی کی بجائے اپنے موقف پر میاں نواز شریف کو قائل کیا اور جماعت اسلامی کو جان پر کھیل کر دو نشستیں دلائیں۔
بعد میں 2021 کے انتخابات میں رشید ترابی کے فیصلے پر فاروق حیدر رنجیدہ تھے اور نجی مجلسوں میں کہتے رہے کہ رشید ترابی نے ہماری قبر کی مٹی بھی نہ سوکھنے دی اور دوسری طرف چھلانگ لگادی۔
2021کے عام انتخابات میں مشتاق ، جنرل فیض کی مہربانیوں سے تنویر الیاس کی دولت کی چمکُ اور زمانے کے بےثباتی کی وجہ سے بری طرح ہار گئے جبکہُ میرے ہمسائے اور کلاس فیلو راجہ محمد صدیق جرال راولپنڈی ڈویژن اور خیبر پختونخوا سے جموں کے مہاجرین کی سیٹ سے کامیاب ہوگئے حالانکہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی بزدار اور محمود کی
حکومتیں تھیں.
آزاد کشمیر میں پی ٹی آئی کی تیسری حکومت سردار تنویر الیاس کی عدالت سے نا اہلی کے بعد ختم ہوگئی اور باغ میں بھی ضمنی انتخاب کا میدان سج گیا ایک مرتبہ پھر مشتاق منہاس ہار گئے لیکن سید طلعت حسین کے وزیر داخلہ رانا ثنا اللہُ کے ساتھ انٹرویو میں پتہ چلا کہ مشتاق منہاس کو پتہ تھا کہ انہیں کس طرح ہرایا جائے گا.
انہون نے راناثنا اللہُ سے اس حلقہ میں رینجرز کی تعیناتی کی درخواست کی لیکن مشیر امور کشمیر قمر زمان کائرہ نے وزیر اعظم شہباز شریف سے کہہ کر رینجرز کی تعیناتی رکوادی جس بات کا مشتاق منہاس کو یقین تھا کہ پیپلز پارٹی کے امیدوار کی جہاں برادری ہے وہ وہاں مخالف امیدوار کے الیکشن ایجنٹ بھی بیٹھنے نہیں دیتا.
پھر ایسا ہی ہوا کہ وہاں ٹھپے پر ٹھپے لگے وہاں 95 فیصد ووٹ پول ہوا اور باقی تمام حلقہ میں چالیس فیصد تک ووٹ پول ہوا اب کس سے کوئی گلہ کرے جمہوریت بہترین انتقام جس کا تازہ مظاہرہ ہم نے کراچی میں مئیر کے انٹخاب میں بھی دیکھ لیا۔
(بشکریہ محسن رضا فیس بک)
عزیز از جان جو اب نہ رہا
Comments are closed.