،،کے پی،، پولیس۔۔ عمران خان کے نام کھلا خط
محبوب الرحمان تنولی
جناب عمران خان ! جلسہ ہو، ٹاک شو یا صحافیوں سے گفتگو خیبر پختونخواہ پولیس کے حق میں نعرہ مستانہ بلند کرنا آپ کا تکیہ کلام بن چکا ہے۔آپ تسلسل سے اتنے یقین کے ساتھ پولیس کا قبلہ درست ہونے کے دعویدار ہیں کہ غیر جانبدار لوگ جو کبھی خیبر پختونخواہ نہیں جاسکے انھیں تو یقینا ،، کے پی ،، پولیس سکاٹ لینڈ یارڈ کے برابر لگتی ہوگی۔۔۔ سچ یہ ہے آپ کے دعوے زمینی حقیقت سے مطابقت نہیں رکھتے۔۔
میں بات آگے بڑھانے سے پہلے آپ کو یہ باور کرا دوں کہ میں پی ٹی آئی کا رکن نہیں لیکن آپ کی جماعت کا ،،ویل وشر ،، ہوں۔۔ مجھے آپ کے وژن اور اخلاص سے کوئی اختلاف نہیں۔۔ ۔ یقینا عمران خان صرف صوبے کو ہی نہیں ملک کو بھی بہت آگے لے جانے کی خواہش دل میں رکھتے ہوں گے مگر بدقسمتی ہے ۔۔ نظام نیک خواہشات پر نہیں چلتے۔۔۔ زمینی حقیقتوں کو ملحوظ خاطر رکھنا ضروری ہوتاہے۔۔
آپ صوبے میں بلدیاتی نظام ۔۔ بلدیاتی نمائندوں کو اختیارات دینے کا دعویٰ کریں تو میں بلدیاتی نظام کی کامیابی اور ناکامی کی بجائے آپ کی نیک نیتی کے احترام میں چپ رہوں ۔۔۔ وہ اس لیئے تحریک انصاف نے فراغ دلی سے بلدیاتی نمائندوں کو اپنے لوگوں کی خدمت کا موقع تو دیا ہے۔۔۔ سندھ اور پنجاب کی طرح نام کے نمائندے منتخب نہیں ہوئے۔۔ ان کو اختیارات بھی ملے ہیں۔۔
لیکن خیبر پختونخواہ میں پولیس تبدیل ہونے کے دعوے سے میں اس لیئے اتفاق نہیں کرسکتا کیوں کہ میں خود اس تجربہ سے گزرا ہوں۔۔ گلے سڑے پولیس نظام میں صرف اتنی تبدیلی آئی ہے کہ اب خیبر پختونخواہ میں سیاسی تبادلے نہیں ہوتے۔۔ درانی صاحب کے دور میں شاید کوئی چیک اینڈ بیلنس ہو گا۔۔ اب تو اللہ ہی حافظ ہے۔۔روائتی تربیتی عمل سے گزر کر پولیس افسر وں نے اختیارات کاغلط استعمال شروع کردیا ہے۔۔
آگے چل کر اس کی مثال پیش کرتاہوں ۔۔ پہلے خیبر پختونخواہ کے تھانہ کلچر پر بات ہو جائے۔۔۔۔مجھے ایک مقدمہ میں مانسہرہ کے ایک تھانہ ۔۔ ڈی پی او ۔۔ ڈی ایس پی اور دیگر اہلکاروں سے پالا پڑا تو نظام کے بدلنے کے دعووں پر حیرت ہوئی۔۔تھانوں میں آج بھی پولیس ایک فریق کو ایک راستہ دکھا کر پیسے لیتی ہے تو دوسرے کو الگ زریعہ بتا کر پیسے بٹورتی ہے۔۔ جسمانی ریمانڈ پر بلیک میلنگ اور بارگیننگ اب بھی تفتیشی اور ایس ایچ او کا وطیرہ ہے۔۔
سارے پولیس افسران ایک جیسے نہ سہی۔۔۔ لیکن اب بھی ایسے افسروں ۔۔ ایس ایچ اوز کی کمی نہیں ہے جو تبادلے نہ ہونے اور اختیارات ملنے کے بعد اختیارات کے غلط استعمال میں بہت آگے جا چکے ہیں۔۔انصاف کے متلاشی افراد کو دھتکار دیا جاتاہے۔۔ پیسے لے کر جھوٹے میڈیکل اور جھوٹے مقدمے قائم کردیئے جاتے ہیں۔۔
میں کوئی افسانہ نہیں لکھ رہا ۔۔ نہ ہی یہ تحریر لکھنے کامقصد پی ٹی آئی کی حکومت یاپولیس کا نشانہ بنا نا ہے۔۔۔ لیکن میں چند ایک باتوں کی نشان دہی اس لیئے ضروری سمجھتا ہوں کہ آپ جس محکمہ پر اتنا ناز کرتے ہیں اس کی چولوں میں اب بھی دھیمک چھپی ہوئی ہے ۔۔ اور آپ کے سسٹم کو چاٹ رہی ہے۔۔ میں چند ذاتی تجربات کی روشنی میں کچھ حقائق آپ کے گوش گزار کررہا ہوں ۔۔ خدارا پولیس کے حق میں ضرور بولیں مگر حقائق سے روگردانی نہ برتیں۔۔
جون دو ہزارسترہ کو تھانہ صدر مانسہرہ کے ایک گاوں میں فریقین میں جھگڑا ہوا۔۔۔ ایک بندہ کراس فائرنگ میں اپنے ہی بندوں کے ہاتھوں جاں بحق ہوگیا۔۔ مخالفین نے اس لڑکے کے خلاف تین سو دو کا مقدمہ درج کرا دیا جو فائرنگ کے وقت اٹھائیس کلو میٹر دور مانسہرہ شہر میں تھا۔۔موبائل کالز ٹریسنگ سمیت کئی شہادتوں کے باوجود پولیس نے یکطرفہ تفتیش کی ۔۔۔ تفتیشی ایک فریق سے چھاپے مارنے کے پیسے لیتا رہا اور دوسرے سے بچنے کے طریقے بتا کر۔۔۔
اسی دوران اسی گاوں میں ایک چوری ہو گئی ۔۔۔ متاثرہ پارٹی کی تھانے میں ایک نہ سنی گئی اوربغیر تفتیش اور دیکھے اسے انتقامی کارروائی کہہ کر درخواست تک لینے سے انکار کردیاگیا۔۔۔جب آئی جی آفس کی سفارش پر چوری سے متاثرہ شخص اس وقت کے ڈی پی او مانسہرہ احسن سیف اللہ کے پاس گیا تو موصوف نے انکوائری لکھ کر بات ٹال دی۔۔ اگلے دن پولیس متاثرہ گھر دیکھنے گئی اور درخواست میں نامزد ملزمان سے ہی گواہی لے کر درخواست داخل دفتر کردی۔
جناب عالی ۔۔۔یہ درخواست آج بھی ریکارڈ میں موجود ہوگی اور پولیس کی رعونت اور اختیارات کے غلط استعمال کا منہ چڑا رہی ہے۔۔یہ سب لکھنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ یہ آنکھوں دیکھے واقعات ہیں جو آپ کے دعووں کے برعکس ہیں۔۔ کاش آپ جتنا زور پولیس کے حق میں بولنے پر دیتے ہیں اتنا چیک اینڈ بیلنس پر بھی دیں تو یقینا بہتری آجائے۔۔۔سیاسی تبادلے نہ کرنا مستحسن اقدام ہے لیکن اچھا اچھا کہہ کر پولیس نظام سے چشم پوشی اختیار کرنا مجرمانہ غفلت ہے۔
عمران خان صاحب ! تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کب تک ،،کے پی،، کے معاملے پر اپنے منہ میٹھو بنتی رہے گی۔۔ مزا تو تب ہوتا ہے کہ آپ کے مخالفین بھی اعتراف کریں تبدیلی کا۔۔۔ اگر تبدیلی آئی بھی ہے تو بعض کالی بھیڑیں اب بھی آپ کے دعووں کے برعکس گلے سڑے اور راشی نظام کی باقیات سے باہر نہیں نکلے۔۔۔۔ خصوصاً تھانہ کلچر تو اب بھی اسی طرح ہے۔۔ کے پی پولیس کی کمپیوٹرائزڈ ایف آئی آرز بھی صرف آپ کے اشتہارات میں نظر آتی ہیں۔۔
پولیس کے خلاف ایس ایم ایس سروس بھی نمائش کی حد تک ہے کبھی کسی ورکر کے موبائل سے آپ شکایت کرکے آزمائیں۔۔۔ پشاور کو چھوڑ کر۔۔۔ وہ اس لئے کہ وہاں وزیراعلیٰ اور صوبائی کابینہ بیٹھتی ہے ۔۔۔ہوسکتا ہے۔۔ جواب مل جائے۔۔ باقی آپ میل کریں۔۔ ایس ایم ایس کریں یا کسی پولیس والے کے خلاف کوئی شکایت کریں۔۔ حرام ہے جو کبھی جواب بھی ملتا ہو۔۔
پی ٹی آئی کیلئے دل میں نرم گوشہ رکھنے کی وجہ سے دعا گو ہوں کہ صوبے میں وہی وژن نظر بھی آئے جو کچھ آپ کی زبان پر ہم سنتے ہیں۔۔ قومی معاملات پر صوبے میں حکومت پر آپ کے ذاتی خیالات کاحامی ہوں لیکن ،،، کے پی ،، پولیس کے حق میں آپ کی آواز میں آواز ملانا ممکن نہیں ۔۔۔ اصلاح کی بہت زیادہ گنجائش موجود ہے۔
Comments are closed.