تاریخ کا اہم موڑ
محبوب الرحمان تنولی
قلم قبیلے کا آدمی ہوں، معاصرین کی اکثریت باشعور اور موقف سوچ سمجھ کرپیش کرنے کو ترجیح دیتی ہے۔ پاکستان میں اگر دہشتگردی کو پاک فوج نے ختم کیاہے تو انتہاپسندی کو اعتدال کی طرف لے کر آنے میں ذرائع ابلاغ کا بھی بڑا کردار رہاہے۔مجھے یہ کہتے ہوئے برا نہیں لگتا کہ ہم نے پشاورمیں گرجا پر حملے کی مذمت کی اور اسے دہشتگردی کاواقعہ قرار دیا تھا۔ ہمارے معاشرے کی اکثریت آج بھی نائن الیون کے واقعہ کے حق میں نہیں ۔۔ یہ الگ بات ہے کہ نائن الیون کے ذمہ دار وں کا آج تک تعین نہ ہوسکا۔
متذکرہ تمہید باندھنے کی ضرورت تب پیش آئی جب کرائسٹ چرچ کی مساجد میں دہشتگرد ٹرینٹن ٹرینٹ نے انسانوں کے خون سے فقط اس بات پر ہولی کھیلی کے وہ مسلمان تھے۔۔ ٹرینٹن ٹرینٹ کو مسلمانوں سے نفرت ہے ۔۔ اس کا اظہار اس نے عبادت میں مصروف نہتے نمازیوں کا قتل عام کرکے کیا۔ اسلحہ سے لیس دہشتگرد بار بار گولیاں برساتا ۔۔ پھر باہر آکر گنیں لوڈ کرتا پھر اندر جاتارہا۔ گاڑی میں گانے سنتا جائے واردات پر آیا اور اسی رعونت سے واپس بھی گیا۔
مسجد سے متصل سڑک پرگولیوں کی تڑ تڑاہٹ جاری رہی ، گن اٹھائے شخص دندناتا رہا۔ کسی نے کھڑے ہو کر منظر دیکھنے کی زحمت بھی گوارا نہ کی ۔۔ مداخلت تو دور کی بات ہے۔۔ میں اس منظر کا مثبت پہلو یہ نکالتاہوں کہ ایک پر امن ملک میں جہاں پہلے ایسا کوئی واقعہ پیش نہ آیا ہو ۔ لو گ کسی ایسے اقدام کی توقع نہیں کررہے تھے شاید اسی لیئے کوئی رکا نہیں۔۔ جب وہ سڑک پر چلتے گاڑی سے گو لیاں برسا رہا تھا تب بھی کسی نے نوٹس نہیں لیا۔
سفاکیت تو عیاں تھی۔ دہشتگرد مرے ہوئے جسموں پر پھر گولیاں برساتا رہا۔۔اس کے اندر جو نفرت بھری تھی اسے اپنے ایسی سوچ کے والوں تک پہنچانے کیلئے اس نے گن کی طرح کیمرے پر بھی پوری توجہ رکھی ۔ ۔ آدھے گھنٹہ سے زائد وقت تک یہ المناک مناظر دنیا بھر میں براہ راست چلتے رہے۔۔فیس بک انتظامیہ نے نوٹس لیا اور لائیو مناظر کا تسلسل توڑا ۔۔ مگر نیوز ی لینڈ کے قانون نافذ کرنے والے ادارے خواب غفلت سے بیدار نہ ہوئے۔
یہ لرزہ خیز، سفاک اور سیاہ تاریخ کا ایک باب ہے۔۔ بات جو ں جوں آگے بڑھے گی تقسیم در تقسیم نظرآئے گی۔جس کی ایک جھلک ہم دیکھ چکے مغربی میڈیا اس دہشتگرد کو شوٹر لکھتا رہا۔۔ سوشل میڈیا پر ناقدین کی زبردست مزاحمت پر اسے دہشتگرد کہا گیا۔۔ امریکہ کے صدر تک نے واقعہ کی مذمت کی نہ اسے دہشتگردی کہا۔۔ جب ٹرمپ نے نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جیسنڈا آرڈرن سے ٹیلی فون پر پوچھا کہ نیوزی لینڈ کی کیا مدد کی جائے۔۔ اسے جواب ملا مسلم کمیونٹی سے اظہار یکجہتی اور دہشتگردی کی مذمت کریں۔
حقیقت میں نیوزی لینڈ کی وزیراعظم کا امریکی صدر کے منہ پر یہ تھپڑ ہی تھا جسے خود یہ سوچ نہیں آئی کہ عبادت میں مصروف انسانوں کاایسے انداز میں قتل دہشتگردی ہی ہے۔۔ امریکی صدر نے چند گھنٹے بعد ٹویٹ میں مذمت بھی کردی اور واقعہ کو دہشتگردی بھی قرار دے دیا۔ ۔ ایسے ہی سلوک کا ٹرمپ کوامریکی صحافی اورٹی وی شو میزبان اینڈرسن کوپر کی طرف سے بھی سامنا کرنا پڑا۔
اینڈرسن کوپر نیوزی لینڈ میں مساجد پر حملے کی کھل کر مذمت نہ کرنے پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر برس پڑے۔ اینڈرسن کا موقف تھا ٹرمپ کی طرف سے دہشتگردی کو دہشتگردی کہے بغیر مذمت کرنا منافقت ہے۔۔ مساجد پر حملوں کو دہشت گردی نہ قرار دینا جاں بحق مسلمانوں کی توہین ہے۔مزید کہا کہ سفید فام قوم پرستی کو دنیا کے امن کے لئے خطرہ قرار دینے سے گریز ٹرمپ کے نسل پرست رویے کی غمازی کرتاہے۔
مقصد امریکی صدر پر تنقید کا بہانہ تلاش کرنا نہیں۔۔ نہ ہی کسی صحافی یا جیسنڈا آرڈرن کی تعریف کرناہے۔ یہ وہ ،،ویک اپ،، کالز ہیں جو ٹرمپ سمیت ہر اس مذہب کے پیروکاروں کیلئے ہیں جو دنیا میں امن و استحکام چاہتا ہے۔۔ یہ صرف پچاس مسلمانوں کا قتل نہیں ہے اس سے آگے ایک خوفناک مرحلہ شروع ہو سکتاہے۔ ۔ایسے میں اسٹریلوی دہشتگرد کیلئے نرم گوشہ رکھنا یااس سے ہمدردی کااظہار کرنا انسانیت کی توہین ہے۔ وہ شخص کسی بھی طور کسی نرم لفظ کا بھی مستحق نہیں ہے۔
تاریخ کی کتابیں کھنگالنے کی ضرورت نہیں ۔ نائن الیون کے بعد شروع ہونے والے جنگ و جدل کے سلسلہ نے کتنے بچے پیدا کئے؟ عراق کے صدام حسین سے لے کر اسامہ بن لادن تک ۔۔ اس کے بعد بمباری اور ڈرون حملوں سے مسلمانوں کو مارنے اور پھر ردعمل کو اسلامی انتہا پسندی یامسلم دہشتگرد کہنے کی اصطلاح استعمال کرنے والوں کو یہ بھی یاد ہو گا کہ پاکستان سمیت دنیا بھر کے مسلمانوں نے نائن الیون واقعہ کی مذمت بھی کی، حملہ آوروں کو دہشتگرد بھی کہا اور واقعہ کو دہشتگردی بھی قرار دیا۔
یہ تسلسل دو دہائیوں تک برقرار رہا۔۔ صرف اس لیئے کہ اسلام امن کا دین ہے ، نفرتیں پھیلانے والوں کا ساتھ نہیں دیتا ۔ ورنہ اسامہ بن لادن نے کرائسٹ چرچ ایسا کوئی قتل عام نہیں کیا۔۔ نہ ہی نائن الیون سے اس کا کوئی تعلق ثابت ہو سکا۔۔ صدام حسین کے خلاف بھی پھیلائی گئی نفرت کی داستان جھوٹی ثابت ہوئی۔۔ لیکن پرامن رہنے کی خواہش رکھنے والے مسلمانوں کی اکثریت نے اس کے بعد کی دہشتگردی کا ساتھ نہیں دیا۔۔ ہاں البتہ جب دہشتگردی کو اسلامی یا مسلم دہشتگرد کہاگیا تو سب کے دل دکھتے رہے۔
آج جب نیوز ی لینڈ میں ایک سفید فارم شخص نے عبادت گزاروں کو خون میں نہلایا۔۔ اس کے مناظر دنیا پر دکھاتا رہا۔ ۔ پیش بندی کیلئے فیس بک کا پیج بھی بنا کر اس پر سارا پلان بھی لکھ دیا ۔۔ اس پر عمل کیا تو اس گورے کو دہشتگرد ۔۔ یاسانحہ کرائسٹ چرچ کو دہشتگردی کہتے زبانیں گنگ کیوں ہورہی ہیں؟۔۔تاریخ ایک فیصلہ کن موڑ پر ہے ۔۔ اگر آج مساجد کے متاثرہ مظلوموں کابلا تفریق ساتھ نہ دیا گیا تو پھر کل دنیا میں کسی بھی جگہ ایسے قتل عام کی کوئی مذمت نہیں کرے گا۔
شعور کا تقاضا ہے کہ کرائسٹ چرچ سانحہ کی کوئی حمایت نہ کرے ۔۔ کوئی اسٹریلوی دہشتگرد کا ساتھ نہ دے۔۔ اگر امریکہ یا مغرب والوں کی اصطلاح استعمال کی جائے تو ٹرینٹن ٹرینٹ عیسائی دہشتگرد ہے۔۔ لیکن سچ یہ ہے کہ دہشتگردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔۔ دہشتگردی کسی بھی شکل میں ہو قابل مذمت ہے۔۔ انسان اور انسانی اقدار زندہ رہیں تب ہی یہ انسانی معاشرہ کہلاتاہے۔۔ ورنہ جنگل میں تو کوئی قانون نہیں ہوتا۔۔ اگر انسانوں کے ایسے قتل عام، خود کش حملوں کو جائز قرار دیاجائے تو پھر مسلمان تو شہادت پر یقین رکھتے ہیں۔
ٹرینٹن ٹرینٹ کو نیوزی لینڈ کی عدالت میں پیش کردیا گیاہے۔ ۔ اقوام عالم یہ امید کررہی ہیں کہ اس دہشتگرد کو اپنے کئے کی عبرتناک سزا ملے گی۔۔ اس نے تو خود اعتراف جرم بھی کرلیا۔ ۔ تحریری ثبوت بھی موجود ہیں اور ویڈیو ز کے مناظر بھی کم نہیں۔۔ اس مقدمہ کو زیادہ طوالت دینے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔۔ نیوزی لینڈ کی وزیراعظم کا موقف اور رویہ قابل ستائش ہے۔۔ یقینا جیسنڈا نے جلتی پر پانی ڈالا ہے ۔وہ بھی متعصب رویہ اپناتیں تو صورتحال خطرناک سمت بڑھ سکتی تھی لیکن انھوں نے مسلم کمیونٹی سے ہمدردی کااظہار کیا۔
مساجد میں ہونے والی یہ لرزہ خیز دہشتگردی تاریخ کااہم موڑ ہے۔ اس واقعہ کے ساتھ تحمل اور برد باری سے نمٹا گیا۔ ۔میرٹ پر بات اور سماعت کی گئی تو مذاہب کے درمیان ٹکراو کا خطرہ ٹل جائے گا۔۔ اگر اس پر روائتی جھکاو یا تعصب برتا گیا تو نفرتوں کی دیوار اونچی ہو جائے گی۔خدا نہ کرے کسی مسلم ملک میں کوئی نفرت کاالاو لے کر کسی عبادت خانہ میں گھسے۔۔ انسانیت ہر مذہب میں احترام کادرجہ رکھتی ہے، کسی کو اس انداز میں جھکایا یا ڈرایا نہیں جاسکتا۔۔ ایسا ممکن ہوتا تو افغانستان میں امریکہ اور اس کے اتحادی طالبان کوکھا چکے ہوتے۔
Comments are closed.