زخموں کا مزاق اڑانے والے
حامد میر
پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں کشیدگی کے باوجود پاکستان میں بھارتی فلموں کی نمائش جاری ہے۔ پاکستان کے ٹی وی چینلز اور اخبارات میں جو اشتہارات آتے ہیں ان میں بھارتی ایکٹرز کی موجودگی پر بھی کوئی ناراضی نہیں دکھاتا لیکن اگرکوئی پاکستانی ایکٹر کسی بھارتی فلم کی کاسٹ میں شامل ہو جائے تو فلم کے پروڈیوسر کو دھمکیاں ملنا شروع ہوجاتی ہیں۔
کوئی پاکستانی گلوکار بھارت کے کسی کنسرٹ میں بلا لیا جائے تو وہاں توڑپھوڑ شروع ہو جاتی ہے۔ جتنی انتہاپسندی اور نفرت بھارتی معاشرے میں ہے، اتنی نفرت ہمیں پاکستان میں نظر نہیں آتی۔
نفرت اورکشیدگی کے اس ماحول میں ایک پاکستانی شخصیت ایسی ہے جس کی تصویر کوبھارت میں ایک اشتہاری مہم میں شامل کیا گیا ہے اور یہ مہم کوئی اور نہیں بلکہ خود بھارتی حکومت چلارہی ہے۔
بھارتی حکومت کی طرف سے بچیوں کے تحفظ اور انہیں تعلیم دلانے کے لئے ’بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ‘ کے نام سے ایک مہم چلائی جارہی ہے کیونکہ بھارت میں عورتیں کم اور مرد زیادہ ہو گئے ہیں۔
ملالہ کے زخموں کامذاق اڑانے والے کون لوگ تھے؟ یہ دراصل کچھ ذہنی مریض ہیں جن کی بڑی تعداد آپ کو سوشل میڈیا پر بہت سرگرم نظر آتی ہے
اس مہم کے تحت مختلف ریاستوں میں ایسی قابل فخر خواتین کے کردار کو اجاگر کیا جارہا ہے جن کا تعلق سیاست سے نہیں ہے۔ ان خواتین میں گلوکارہ لتامنگیشکر، رائٹر امرتا پریتم اور ایتھلیٹ پی ٹی اوشا شامل ہیں۔
بھارتی پنجاب کے ضلع برنالہ کی دیواروں پر ’’بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ‘‘ مہم کے سلسلے میں جو اشتہارات آویزاں کئے گئے ہیں ان میں پاکستان کی ایک بیٹی ملالہ یوسف زئی کی تصویر بھی شامل کی گئی ہے۔
ملالہ یوسف زئی نے کچھ دن پہلے ڈیووس میں ورلڈ اکنامک فورم کے اجلاس میں شرکت کی اور یہاں وہ مغربی میڈیا کے ساتھ ساتھ بھارتی میڈیا کی توجہ کابھی مرکز تھیں کیونکہ ’بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ‘ مہم دراصل ملالہ یوسف زئی کے اسی خواب کی تعبیر ہے جس کی وجہ سے 2012میں ملالہ پر قاتلانہ حملہ کیا گیا تھا۔
ملالہ بچیوں کی تعلیم کے فروغ کے لئے ملالہ فنڈ کے ذریعے پاکستان سمیت دنیا کے کئی ممالک میں کام کر رہی ہے۔ ملالہ کو دنیا بھر کی حکومتیں اپنا اسٹیٹ گیسٹ بنا کر بڑے بڑے ایوارڈ دینے کے لئے بے قرار رہتی ہیں لیکن کیا آپ نے کبھی سوچا کہ 2012کے بعد سے وہ پاکستان کیوں نہیں آئی؟
ملالہ یوسف زئی ایک سے زائد مرتبہ اس عزم کا اظہار کر چکی ہے کہ وہ پاکستان ضرور آئے گی۔ پاکستان میں اس کو چاہنے والوں کی بھی کوئی کمی نہیں لیکن پاکستان میں ایسے لوگ بھی ہیں جن کو یقین ہے کہ 2012 میں ملالہ یوسف زئی پر ہونے والا قاتلانہ حملہ ایک ڈرامہ تھا، میں ایسے پڑھے لکھے لوگوں کو جانتا ہوں جو کہتے ہیں کہ ملالہ کو کوئی گولی نہیں لگی تھی، اس کا کوئی آپریشن نہیں ہوا تھا وہ دراصل ایک امریکی ایجنٹ ہے اور امریکی سازش کےتحت اس نے پاکستان کو بدنام کرنے کے لئے اپنے آپ پر قاتلانہ حملے کا ڈرامہ کیا اور اسے نوبیل انعام ملنا بھی امریکی سازش ہے۔
پہلے پہل میں حیران ہوتا تھا کہ بہت سے پڑھے لکھے لوگ ملالہ یوسف زئی پر قاتلانہ حملے کو ڈرامہ کیوں سمجھتے ہیں؟ پھر 2014میں مجھ پر کراچی میں قاتلانہ حملہ ہوا۔ مجھے چھ گولیاں لگیں۔ ساتویں گولی جسم کو چھیدتی ہوئی گزر گئی۔ دو گولیاں بدستور جسم میں موجود ہیں۔ میں آغا خان اسپتال کراچی میں کئی دن زیرعلاج رہنے کے بعد سپریم کورٹ کے تین رکنی انکوائری کمیشن کے سامنے پیش ہونے کے لئے پہلی دفعہ وہیل چیئر پر باہر نکلا تو سپریم کورٹ کی کراچی رجسٹری میں وکلا اور جج میرے زخموں سے رسنے والے خون کو دیکھ کر کہتے تھے کہ آپ کو تو واقعی گولیاں لگی ہیں۔
دراصل کچھ ٹی وی اینکرز نے یہ شوشہ چھوڑا تھا کہ مجھ پر قاتلانہ حملہ بھی ایک ڈرامہ تھا اور مجھے اصلی گولیاں نہیں بلکہ پلاسٹک کی گولیاں ماری گئیں۔ انکوائری کمیشن کے سامنے پیش ہونا بہت تکلیف دہ عمل تھا جس کے باعث میرے پیٹ پر لگے ہوئے کچھ ٹانکے ٹوٹ گئے اور تکلیف بڑھ گئی۔
سپریم کورٹ کے انکوائری کمیشن نے اگلی تاریخ کراچی کی بجائے اسلام آباد رکھی لہٰذا مجھے اسلام آباد آنا پڑا۔ زخموں کو پھٹنے سے بچانے کے لئے ڈاکٹر نے مجھے پیٹ پر ایبڈومینل بائینڈر باندھنے کی تاکید کی تاکہ وہیل چیئر کو جھٹکا لگنے سے کوئی ٹانکا دوبارہ نہ ٹوٹے لیکن کچھ پڑھے لکھے جاہلوں نےاس ایبڈو مینل بائینڈر کا بھی مذاق اڑانا شروع کردیا اور کہا کہ بھلا کوئی اپنی شرٹ پر بھی پٹی باندھتا ہے۔
یہ وہ وقت تھا جب مجھے سمجھ آئی کہ ملالہ یوسف زئی کے زخموں کامذاق اڑانے والے کون لوگ تھے؟ یہ دراصل کچھ ذہنی مریض ہیں جن کی بڑی تعداد آپ کو سوشل میڈیا پر بہت سرگرم نظر آتی ہے اور حیرت یہ ہے کہ ان میں سے اکثر مریض بہت پڑھے لکھے ہیں۔
مجھ پر حملے کو چار سال ہونے والے ہیں۔ سپریم کورٹ کے تین رکنی انکوائری کمیشن نے تین ہفتے میں اپنی رپورٹ تیار کرنی تھی لیکن یہ رپورٹ سامنے نہ آئی۔ جن افراد پر حملے کا الزام لگایا گیا تھا ان میں سے کوئی کمیشن کے سامنے پیش نہ ہوا۔ کمیشن کے تین میں سے دو جج ریٹائر ہوگئے۔ جن پر الزام تھا وہ بھی ریٹائر ہو کرگھر چلے گئے لیکن اس کمیشن کی ایک غیرمصدقہ اور غلطیوں سےبھرپور مبینہ رپورٹ اکثر سوشل میڈیا پر زیربحث رہتی ہے جس میں یہ کہیں نہیں کہا گیا کہ مجھے پلاسٹک کی گولیاں ماری گئیں لیکن چار سال کے بعد ان پلاسٹک کی گولیوں کو اسپرین کی گولیاں بنا دیا گیا اور یہ کارنامہ ہمارے محترم و مکرم ڈاکٹر شاہد مسعود صاحب کی مدد سے سرانجام دیا گیا ہے۔
اس کارنامے کی تفصیل کچھ یہ ہے کہ انہوں نے سات سالہ زینب کے قاتل عمران کے ملکی و غیرملکی بینکوں میں اکائونٹس کا ذکر کیا تھا اور کہا کہ اس کا تعلق ایک عالمی گروہ سے ہے اور ایک وفاقی وزیر عمران کا سرپرست ہے۔
دراصل کچھ ٹی وی اینکرز نے یہ شوشہ چھوڑا تھا کہ مجھ پر قاتلانہ حملہ بھی ایک ڈرامہ تھا اور مجھے اصلی گولیاں نہیں بلکہ پلاسٹک کی گولیاں ماری گئیں
ڈاکٹر صاحب کی خواہش پر سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لیا تو ڈاکٹر صاحب نے ملزم عمران کے 37 اکاؤنٹس کی تفصیل اور اس کے سرپرست وفاقی وزیر کا نام چیف جسٹس کو دے دیا۔
جب میں نے اس معاملے کی تحقیق کی تو پتا چلا کہ ڈاکٹر شاہد مسعود کا دعویٰ غلط ہے۔ میں نے کیپٹل ٹاک میں کہہ دیا کہ ڈاکٹر صاحب کا دعویٰ غلط ہے جس پر وہ بھڑک گئے اور انہوں نے بڑے مزاحیہ انداز میں میرے زخموں کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ پتا نہیں حامد میر کو اصلی گولیاں لگی تھیں یا نقلی اور پھر سوشل میڈیا پر ان کے حامیوں نے کہا کہ یہ اسپرین کی گولیاں تھیں۔
ان کی طرف سے میری تضحیک کے اگلے ہی روز مجھے سپریم کورٹ میں ان کی تضحیک دیکھنے کا موقع ملا۔ وہ اپنا دعویٰ ثابت کرنے میں ناکام ہوگئے اور ان کی ناکامی کے باعث پورے میڈیا کا مذاق بن گیا۔ مجھے محسوس ہوا کہ یہ ایک فرد کا نہیں پورے میڈیا کا ٹرائل بن گیا ہے۔ میں نے چیف جسٹس سے گزارش کی کہ اگر ڈاکٹر صاحب ابھی اسی وقت معافی مانگ لیں تو اس آپشن پر غور کیا جائے۔
چیف جسٹس نے مثبت جواب دیا لیکن ڈاکٹر صاحب کو صورتحال کی سمجھ نہ آئی انہوں نے معافی کا موقع کھودیا۔
برادر عزیز یاسر پیرزادہ نے پوچھا کہ ڈاکٹر شاہد مسعود نے آپ کے زخموں کا مذاق اڑایا آپ نے اس کےلئے معافی کی بات کیوں کی؟ میں نے یاسر بھائی سے کہا کہ غلطی پر معافی مانگنے سے کوئی صحافی چھوٹا نہیں ہوجاتا میں نے انہیں موقع دیا کہ وہ اپنے آپ کو صحافی ثابت کردیں، انہوں نے موقع کھو دیا۔
ڈاکٹر شاہد مسعود مجھے عدالت میں لہولہان اور زخمی نظر آ رہے تھے میں ان کے زخموں کا مذاق نہیں اڑانا چاہتا تھا۔ میں نے معافی کی بات کرکے عدالت کو پیغام دیا کہ وہ ایسا فیصلہ نہ کرے جس کو سامنے رکھ کر آئندہ کوئی بھی عدالت آزادی صحافت کا گلا گھونٹ دے۔
بات ملالہ کے زخموں سے شروع ہوئی تھی۔ مجھے امید ہے کہ وہ پاکستان ضرور آئے گی اور جو بیمار لوگ ملالہ کے زخموں کا مذاق اڑاتے ہیں ملالہ ان کو بھی معاف کردے گی اور ان کی ذہنی صحت یابی کی دعا کرے گی۔
Comments are closed.