چین اور امریکہ کے درمیان ثالثی

61 / 100
شکیل احمد رامے

وزیراعظم عمران خان کی دورہ چین کے دوران نئے و پرانے تمام تنازعات اور اختلافات کے حل کے لئے چین اور امریکا کے درمیان ثالثی کی پیشکش ایک بہترین پیشکش ہے، کیونکہ پاکستان واحد ملک ہے، جسے چین اور امریکہ کے درمیان ثالثی کا تجربہ ہے۔

پاکستان نے1960 کی دہائی کے آخر اور 1970 کی دہائی کے اوائل میں دونوں ممالک کو ناصرف اپنے اختلافات پرامن طریقے سے حل کرنے کی سہولت فراہم کی بلکہ دونوں ملکوں کے درمیان دوستی اور باہمی مفاد پر مبنی اقتصادی شراکت داری قائم کرنے میں بھی مدد کی۔

اس تناظر میں وزیراعظم کی ثالثی کی پیشکش بلاشبہ ایک اچھا قدم ہے تاہم، پاکستان کو یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہئے کہ موجودہ حالات اور اس کے تقاضے1960 اور 1970 کی دہائیوں سے مختلف ہیں۔1960 کی دہائی کے اواخر میں چین اورمتحدہ روس (USSR)ایک دوسرے کے مخالف تھے اور مختلف مسائل پر شدید اختلافات رکھتے تھے۔

اس کا نتیجہ سرحدوں پر کشیدگی کی صورت میں نکلا اور دونوں ممالک سرحدوں پر ایک دوسرے کے خلاف بر سر پیکار رہے۔ دوسرا، چین اور سوویت یونین کے درمیان کمیونزم کے حوالے سے شدید نظریاتی اختلافات تھے۔ دونوں ملک کمیونزم اور اس کے نظریے کی تشریح اپنے اپنے نقطہ نظر سے کرتے تھے۔

جب968 میں چیکوسلواکیہ پر حملے نے کشیدگی کی نئی لہر کو جنم دیا۔ چیئرمین ماﺅ نے اسے بریزنیف نظریے کی مطابقت سمجھا اور اس کی مخالفت کی۔ سب سے مضبوط مخالفت وزیر اعظم Zhou Enlai کی طرف سے آئی انہوں نے کہا، ”یہ فاشسٹ سیاست، عظیم طاقت chauvinism، قومی انا پرستی اور سماجی سامراجیت ہے۔

یہ امریکہ کیلئے چین اور سوویت یونین کے درمیان خلیج سے فائدہ اٹھانے کا بہترین موقع تھا۔ امریکہ سوویت یونین کو تنہا کرنے کے موقع سے فائدہ اٹھانا چاہتا تھا۔ تیسرا، چین اور امریکہ کی معیشت کا کوئی موازنہ نہیں تھا۔

اس وقت چین کو بھی شدید اقتصادی اور ترقیاتی چیلنجز کا سامنا تھا۔ لہذا امریکہ کو چین سے کوئی مقابلہ محسوس نہیں ہوا، اور باور کیا گیا کہ چین ایک جونیئر پارٹنر رہے گا۔ چوتھا، امریکہ کا ہدف USSR تھا۔ پانچویں، پاکستان ایک متاثر کن (formidable)اور پاکستان کو اُبھرتی ہوئی معیشت کے طور پر پہچانا جاتا تھا۔

معاشی ترقی کی رفتار نے پاکستان کو دنیا کی اعلی معیشتوں میں شامل کر دیا تھا۔ چھٹا، پاکستان کو چین اور امریکہ کا اعتمادحاصل تھا۔ ایک طرف پاکستان SEATO اور CENTO کا رکن تھا، جو خطے میں امریکہ کے بڑے اتحاد تھے۔

پاکستان کے بھی سوویت یونین کے ساتھ اچھے تعلقات نہیں تھے۔ دوسری جانب پاکستان چین کے ساتھ مل کر کام کر رہا تھا اورخاص طور پر اس کے سرحدی حد بندی مسائل پرامن طریقے سے حل کر رہا تھا۔

یہی وجہ تھی کہ پاکستان معاشی مضبوطی اور امریکہ اور چین کے اعتماد کی وجہ سے دونوں ملکوںکےلئے قابل قبول ثالث بن گیا۔
تاہم، اب حالات اور ترجیحات بدل چکی ہیں۔ پہلے روس کا نشانہ چین تھا ،اب امریکہ ہے۔

ہدف کی اس تبدیلی کی بڑی واضح وجوہات ہیں۔ اب چین تیزی سے ترقی کی سیڑھیاں چڑھ رہاہے اور توقع ہے کہ آئندہ چند سالوں میں چین ایک مکمل ترقی یافتہ ملک بن جائے گا۔

چین کے معاشی عروج نے امریکہ کی معاشی بالادستی کو خطرہ میں ڈال دیا ہے۔ امریکہ کو بھی چین سے زبردست مقابلے کا سامنا ہے اور چین ٹیکنالوجی کے میدان سمیت تمام شعبوں میں نئی عالمی طاقت بن کر ابھر رہا ہے۔

دوسرا، اس وقت چین اور روس کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے۔ چین اور روس بہت قریب ہو کر کام کر رہے ہیں دونوں ملکوں کے درمیان اسٹریٹجک اور اقتصادی شراکت داری ہے۔ دونوں ممالک کی قیادت بھی ایک دوسرے کے بہت قریب ہے۔

تیسرا، اس وقت پاکستان کی معیشت اچھی نہیں ہے اوروہ آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، پیرس کلب وغیرہ جیسے بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے قرضوں کے جال میں الجھا ہوا ہے۔
پانچویں، وقت کے ساتھ ساتھ چین اور پاکستان کے درمیان دوستی کے رشتے مذید مضبوط ہوئے ہیں۔

انہوں نے ایک دوسرے کے بنیادی مفادات ( بشمول تائیوان، کشمیر وغیرہ) کے ساتھ غیر مشروط وابستگی ظاہر کی ہے۔ وہ عالمی سطح پر ایک دوسرے کے ساتھ ہاتھ ملا رہے ہیں اور یہ بات امریکہ کی آنکھ میں کھٹک رہی ہے امریکہ کو پاکستان اور چین کے درمیان برھےتا ہوا معاشی تعاون بھی بالکل پسند نہیں۔

امریکہ مسلسل پاکستان سے چین کے ساتھ تعاون کو محدود کرنے کا کہہ رہا ہے۔ حالیہ دنوں میں پاکستان کو چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک)کو ترک کرنے اور ایک خطہ ایک سڑک کی سوچ (بی آر آئی) سے باہر آنے کیلئے امریکہ کے شدید دباﺅ کا سامنا ہے۔

لہذا اس وقت صورتحال کچھ یوں ہے کہ اگر پاکستان CPEC سے باہر نکلتا نہیں تو امریکہ پاکستان پر اعتماد نہیں کرے گا اور اگر پاکستان CPEC سے نکلتا ہے تو چین کا اعتماد کھو دے گا۔

چھٹا، پاکستان اور روس بھی اپنے اختلافات کو دور کرنے کے راستے پر ہیں۔ وہ ماضی کو بھلا کر تعاون کی نئی راہیں تلاش کرنے کےلئے مل کر کام کر رہے ہیں۔ حالیہ برسوں میں پاکستان اور روس نے معیشت اور توانائی سمیت مختلف شعبوں میں تعاون کے چند معاہدوں پر دستخط کئے ہیں۔

توقع ہے کہ وزیراعظم عمران خان کے دورے کے بعد یہ تعلقات مزید مضبوط ہوں گے۔
اس طرح اس تناظر میں چین اور امریکہ کے درمیان ثالثی کرنا پاکستان کےلئے اگر ناممکن نہیں تو انتہائی مشکل ہوگا۔ مثالی پالیسی یہ ہوگی کہ پاکستان اپنی حکمت عملی میں ثالثی کو شامل کرے اور نہ ہی اس کی پیشکش کرے۔

مصالحت کاری سے پاکستان کےلئے مزید مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ تاہم، اگر امریکہ بدلتی ہوئی صورتحال اور بدلتے ہوئے ماحول کے مطابق اپنا ذہن بدلتا ہے اور خاص طور پر اقتصادی اور تکنیکی محاذوں پرنئے تقاضوں کے مطابق خودکوایڈجسٹ کرنے پر آمادگی ظاہر کرتا ہے، تو پاکستان ثالثی کی پیشکش کر سکتا ہے۔

اس مقصد کے لئے امریکہ کو بی آر آئی منصوبے کوعالمی نظام کو مضبوط کرنے کے اقتصادی منصوبہ کے طور پرقبول کرنا ہوگا کیونکہ یہ اقدامات ہر ایک کےلئے ایک پرامن اور خوشحال دنیا کی راہ ہموار کریں گے۔

آخر میں، پاکستان کو حقیقی عالمی تقاضوںکو مدنظر رکھتے ہوئے شعوری پالیسی اختیار کرنی چاہئے اور جذبات پر مبنی پالیسی سے گریز کرنا چاہئے۔

Comments are closed.