روس یوکرین تنازع تاریخ کے تناظر میں

49 / 100

فہیم خان

جنگ پھولوں کی سیج نہیں کانٹوں کی گزر گاہ ہے جس میں قریبی رشتوں سے جدائی سمیت سخت حالات کا مقابلہ کرنا ہوتا ہے جنگ زدہ علاقوں میں انسانی المیوں پر مشتمل دلگداز کہانیاں جنم لیتی ہیں۔اس وقت روس یوکرین تنازع بھی بالاآخر جنگ میں تبدیل ہو چکا ہے۔ اس جنگ کے پیچھے کیا وجوہات ہیں اور یہ تنازع کتنا پْرانا ہے اس کی جانکاری بھی ناگزیر ہے۔

یہ تنازع اسی وقت شروع ہوگیاتھا جب سویت یونین کاشیرازہ بکھرا اور یوکرین کو 24اگست 1991کو آزادی ملی تھی۔ روس چاہتاتھا یوکرین اسی کے زیراثر رہے جبکہ اس کے برعکس یوکرین یورپی یونین میں شمولیت کاخواہاں تھا۔یوکرین کا بارڈریورپی یونین اور روس دونوں سے ملتا ہے۔ 2003 میں یوکرین نے اپنے ایک ہزار فوجی تعینات کر کے عراق پر قبضہ کرنے میں امریکہ کی مدد کی تھی۔

اس صورتحال میں روس کو یوکرین اور امریکہ کی دوستی ایک آنکھ نہ بھائی۔یوکرین میں روس کی مخالفت وکٹر یانوکووچ کے دور میں شروع ہوئی، جو 2014سے 2019 تک یوکرین کے صدر رہے۔ وکٹر یانوکووچ نے2013 میں یورپی یونین ایسوسی ایشن سے معاہدہ کیا جس میں یوکرینین عوام نے ان کابھرپور ساتھ دیا۔ تاہم معاملات تب بگڑے جب 2013میں وکٹر یانوکووچ نے اپنا ہی کیا ہوا معاہدہ توڑ دیا.

اس کے خلاف عوام اٹھ کھڑے ہوئے۔ملک گیر ہنگامے شروع ہوگئے جو سول نافرمانی کی تحریک میں بدل گئے۔اس بحران کے خاتمے کے لیے وکٹر یانوکووچ نے یوکرین کے اپوزیشن لیڈرزکیساتھ مل کر ایک معاہدہ کیا ، جس کے نتیجے میں خانہ جنگی شروع ہوگئی۔وکٹر یانوکووچ کی حکومت کاتختہ الٹ دیا گیا۔وہ جان بچاکر ملک سے فرار ہوگئے۔ یوکرین میں ہنگامہ خیز فسادات کے دوران روس نے یوکرین کے شہر کریمیا پر قبضہ کر لیا اور وہاں ریفرنڈم کروا کر اپنی حکومت بنا لی۔

لیکن امریکہ نے یہاں بھی روس کی مخالفت کی۔ اس وقت روس کے صدر ویلادیمیر پیوٹن نے یوکرین میں موجود روس کے حامی عناصر دونباس کے حق میں ایک بیان داغ کر یوکرین کے خلاف مہم شروع کر دی، جس نے ایک نئی جنگ کو جنم دیا۔ستمبر 2014 میں فرانس، جرمنی ، روس اور یوکرین کے درمیان اس جنگ کے خاتمے کے لیے”منسک معاہدہ” کیا گیا۔لیکن یہ معاہدہ کامیاب ثابت نہ ہوا۔

اْسی وقت سے روس دونباس کے خطے کو خودمختار بنانا چاہتا ہے جبکہ یوکرین اس کے حق میں نہیں کیونکہ اس سے یوکرین دوحصوں میں بٹ جائیگا۔یوکرین ایک چھوٹا سا ملک اور ایٹمی قوت نہ ہونے کی وجہ سے روس سے جنگ کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا اور اس کے لیے اسے نیٹو کی حمایت درکار ہے۔اوراب حالیہ تناظر میں دیکھاتو روس نے یوکرین پر حملہ کیوں کیا ؟

نیٹو میں یوکرین کی ممکنہ شمولیت یا یوکرین میں ایٹمی میزائلوں کی تنصیب وجہ بنی ، یہ سوال ہر کسی کیلئے پریشانی کا باعث بنا ہوا ہے ، اگر کچھ وقت پیچھے جاکر یہ سمجھا جائے کہ یہ کشیدگی کیوں بڑھی تو امریکہ کو زیادہ تنقید کا سامنا کرنا پڑے گا ، سوویت یونین کے ٹوٹنے اور سرد جنگ کے خاتمے کے بعد امریکہ نے روس کے مشکل حالات کا فائدہ اٹھا کر اس سے چھیڑ چھاڑ کی اور اسے پریشان کیا۔

امریکہ نے جغرافیائی اور تاریخی سطح پر روس کے سب سے قریبی ممالک تک رسائی حاصل کی اور نہ صرف وہاں ماسکو مخالف حکومتوں کی تشکیل کی بلکہ ایسے ممالک کو نیٹو اتحاد میں شامل کرنے کیلئے بھی کوششیں کیں، واشنگٹن کی اس پالیسی سے ماسکو کو تشویش کا سامنا رہا۔اب جب مسلسل روسی فوجیں یوکرین میں داخل ہورہی ہیں اور روس نے کیف کے ایئرپورٹ پر قبضے کا بھی دعویٰ کیا ہے۔

اس صورت حال میں یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے شکوہ کیا کہ عالمی برادری کو جس طرح مدد کرنا چاہیئے تھی اب تک نہیں کی گئی ہے۔ روس سے ڈرنے والے نہیں لیکن عالمی برادری نے جنگ کے لیے بالکل تنہا چھوڑ دیا ہے۔ ہم اپنی سرزمین کا اکیلے ہی دفاع کر رہے ہیں اور تاحال دنیا کے سب سے طاقتور ممالک ہمیں دور سے بیٹھے دیکھ رہے ہیں۔

یوکرین کے صدر نے یہ بھی کہا کہ 25 سے زائد یورپی رہنماؤں سے نیٹو میں شامل ہونے سے متعلق پوچھا لیکن کسی نے بھی خوف کے باعث جواب نہیں دیا۔ اب تک کوئی بھی یوکرین کی مدد کو نہیں آیا۔یوکرین پرحملے پراقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں روس کے خلاف مذمتی قرارداد پیش کی گئی ہے لیکن اسے روس نے ویٹوکردیاہے۔

یہ قرارداد امریکہ کی مدد سے ڈرافٹ کی گئی تھی سلامتی کونسل کے11 ممبران نے قرارداد کے حق میں ووٹ دیا۔ چین نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا اور روس کے خلاف مذمتی قرارداد کی ووٹنگ کے وقت بھارت اورمتحدہ عرب امارات بھی غیرحاضر رہے۔بظاہر روس کے یوکرین پر حملے کے بعد مغربی ممالک نے روس پر پابندیاں توعائد کردی ہیں لیکن اب تک کہیں سے یوکرین کے لئے فوجی امداد آئی اور نہ ہی نیٹو فوج مدد کو پہنچی ہیں۔

Comments are closed.