یوکرین کے ساتھ بڑی طاقتوں کا دھوکہ

52 / 100

محبوب الرحمان تنولی

جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاو کی سوچ بظاہرکتنی امن دوست اور پرفریب ہے۔۔ لیکن یہ سیراب ثابت ہو جائے ۔۔جھوٹ ثابت ہو۔۔ اس کے نام پر دھوکہ ہو جائے تو پھر ۔۔۔ وہی ہوتاہے جو کچھ آج یوکرین میں ہو رہا ہے۔

پانچ دسمبر 1994میں ایسا ہی ایک دھوکہ یوکرین کے ساتھ امریکہ ، روس اور برطانیہ نے مل کر کیا۔۔ اس دھوکے کا نام ۔ بڈھا پسٹ میمورنڈم رکھا گیا۔۔اس مفاہمتی یاداشت پر یوکرین سمیت چاروں ممالک نے دستخط کرنے سے پہلے یوکرین سے این پی ٹی یعنی’ نان پرولیفریشن آف نیو کلیئر ویپن’ پربھی دستخط کرائے۔۔ یوکرین کے ساتھ بڈھا پسٹ میمورنڈم کے تحت یوں تو یوکرین کو معیشت میں بہتری کے بہت سبز باغ دکھائے گئے مگر سب سے اہم یقین دہانی یوکرین کی سالمیت کا تحفظ کرنا تھا۔

ان ممالک کے سربراہان نے مل کرہنگری کے دارالحکومت میں بڈھا پسٹ میمورنڈم نام کی دستاویز پر دستخط کئے۔۔ اس وقت روس میں بورس یلسن ، امریکہ میں بل کلنٹن اور برطانیہ میں جان میجر اقتدار میں تھے۔۔ بڈھاپسٹ میمورنڈم پر دستخط ہونے کے بعد حاضرین بہت دیر تک تالیا بجاتے رہے ۔۔ یوکرین کے اس وقت کے صدر کو مبارکبادیں دی گئیں۔۔ میمورنڈم کے مطابق پھر سویت یونین دور میں بنائے گئے ایٹمی وارہیڈ روس منتقل کردیئے گئے۔۔

بوڈاپیسٹ میمورنڈم” میں روس، برطانیہ اور امریکہ نے وعدہ کیا کہ ان میں سے کوئی بھی ملک یوکرین، بیلا روس اور قزقستان کی علاقائی سالمیت یا سیاسی آزادی کے خلاف کبھی دھمکی یا طاقت کا استعمال نہیں کرے گا۔ انہوں نے یہ بھی عہد کیا کہ ان میں سے کوئی بھی یوکرین کو اپنے مفاد کے لیے ماتحت بنائے گا نہ ہی معاشی جبر کا استعمال کرے گا۔

سب سے بڑی یقین دہانی یہ کرائی گئی کہ اس کے باوجود اگر کسی ملک نے یوکرین سمیت ان ممالک کی سلامتی کوچیلنج کیا تو یوکرین کی سلامتی کا سب مل کر تحفظ کریں گے یعنی یوکرین کے دفاع کی ذمہ داری اٹھالی گئی۔۔جوہری ہتھیار حوالے کرنے کی اس یاداشت میں بیلہ روس اور قذاقستان بھی شامل تھے ان ممالک نے بھی ایٹمی وارہیڈ روس کے سپرد کئے۔

واضح رہے پڈھا پسٹ میمورنڈم سے پہلے یوکرین ایٹمی ہتھیار رکھنے والے ممالک کی رینکنگ میں امریکہ اور روس کے بعد تیسرے نمبر پر تھا لیکن متذکرہ مفاہمت کے زریعے یوکرین کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک کردیا گیا۔بیلہ روس اور قزاقستان کے روس کے ساتھ اچھے تعلقات کی وجہ سے ان پر کم مشکلات آئی ہیں جب کہ یوکرین نیٹو کی صف میں شامل ہونے کی خواہش کی وجہ سے زیر عتاب رہا۔

بلکہ یوں کہیئے تو بے جانہ ہوگا کہ اس کے ہاتھ پاوں کاٹ کر بے یارومدد گار چھوڑ دیا گیا۔یوکرین کے اس مفاہمت کے بدلے کچھ معاشی و تجارتی فوائد ملے مگر جب کسی ملک کی علاقائی سالمیت داو پر لگ جائے تو پھر معاشی ترقی کوئی حثیت نہیں رکھتی۔

اس کی مثالیں دنیا پہلے ہی ، لیبیا، عراق اور یمن میں دیکھ چکی ہے۔۔ یہ ممالک معاشی طور پر بہت مضبوط تھے لیکن کرنل قذافی کے نظریات بڑی طاقتوں کو باغیانہ لگتے تھے تو صدام حسین کی طاقت خطے کو چیلنج کررہی تھی۔دونوں کے ساتھ جو ہوا وہ دنیا نے دیکھا۔۔ دونوں ممالک خوشحالی سے بد حالی تک جاپہنچے۔

شام کی طرح یمن میں بھی یمنیوں سے زیادہ اوروں کی جنگ نے تباہی پیدا کی ہے۔ان ممالک کی معاشی حالتیں ان کو نہیں بچا سکیں۔۔دوسری طرف دنیا کی سپرپاور کہلانے والے امریکہ کو چیلنج کرنے والے شمالی کوریاپر کسی کو ہاتھ ڈالنے کی جرت نہیں ہوسکی ۔۔ وہ اس لئے کہ شمالی کوریا یوکرین کی طرح دھوکے میں نہیں آیا۔۔بڈھا پسٹ میمورنڈم کی خلاف ورزیوں میں روس پیش پیش رہا۔۔ 2014میں یوکرین پر حملہ کرکے کریمیا سمیت کئی یوکرینی علاقوں پر قبضہ کرلیا۔۔ روس کو ایڈوانٹج یہ حاصل ہے کہ سویت یونین دور کی ایک بڑی آیادی روس نواز ہے۔

یہی علحیدگی پسند ہیں یہی لوگ حکومتوں میں بیٹھ کر بھی روسی مفادات کا تحفظ کرتے ہیں اور اپنی حکومتوں کو کھوکھلا کرتے ہیں اسی طرح یہی روس کے حامی ریاست کے اندر ریاستیں بنانے میں بھی کامیاب ہو گئے جنھیں تسلیم کرنے میں روس نے دیر نہیں کی ، پھر ان کے تحفظ کے نام پر جارحانہ رویہ اپنا لیا۔

بڈھا پسٹ میمورنڈم پر دستخط کرنے کے بعد یوکرین پر عملاً یہ دوسراوار کیاگیا جب یوکرین کی سالمیت داو پر لگی ہوئی ہے مگر بڈھا پسٹ میمورنڈم پر دستخط کرکے یوکرین کا دفاع کرنے کی یقین دہانی کرنے والے ممالک برطانیہ اور امریکہ قراردادیں منظور کرنے اور پابندیاں لگانے تک محدود ہیں کسی نے یوکرین کی عملی مدد کیلئے قدم نہیں بڑھایا۔۔ ایسی یقین دہانی چین اور فرانس کی طرف سے بھی تھی مگر وہ اس دستاویز کاحصہ نہیں تھے۔

اگرچہ بڈھا پسٹ میمورنڈم میں آئر لینڈ اور بعض دیگر ممالک کا بھی کردار تھا مگر ان کی حثیت ثانوی سی تھی۔۔اس مفاہمتی یاداشت پر دستخط کرتے ہوئے یوکرین کو نیٹو کا رکن بنانے کی بھی یقین دہانی کرائی گئی تھی مگر آج تک یوکرین کو روس نے نیٹو کا ممبر نہیں بننے دیا۔
روس کے دباو میں آ کر نیٹو کے 27ممالک باتوں کی حد تک یوکرین کے حامی ہیں مگر عملاً کوئی اسے نیٹو کا حصہ بنانے کی جرت نہیں کرسکا۔۔اب کی بار جب یوکرین پر روس حملہ آور ہو چکاہے پھر بھی نیٹو ممالک مذمتوں سے آگے آنے کو تیار نہیں ہیں۔ روس دھمکی دے رہا ہے کہ جو ادھر قدم بڑھائے گا اسے نشان عبرت بنا دیں گے۔

یہ ساری صورتحال پاکستان اور دیگر طاقت پکڑنے والے ممالک کیلئے کھلی مثالیں ہیں۔۔ بڑی طاقتوں کے وعدوں کی کوئی حثیت نہیں ہوتی ۔۔ سب اپنے مفاد میں کچھ بھی کرنے کو تیار ہوتے ہیں۔۔لیکن اس کیلئے چھوٹے ممالک کو بلاک میں رہنا پڑتاہے۔۔ وہ جو ہمارے وزیر خارجہ کہہ رہے ہیں کہ کسی بلاک کا حصہ نہیں بنیں گے یہ تنہائی کا راستہ ہے۔

اگر آپ کسی بلاک کا حصہ نہیں ہوں گے تو پھر چین اور روس آپ کے مفادات کا تحفظ کیوں کریں گے؟ بلاک میں کمزور حثیت ہونے کا نتیجہ ہم عرب ممالک کے کردار سے دیکھ رہے ہیں جو کشمیر کے معاملے پر قراردادوں سے آگے بڑھنے کو تیار نہیں ہے۔۔ قراردادیں منظور کرکے بھی بھارتی وزیراعظم کو ایواڈز سے نوازتے ہیں۔

یوکرین کو آج اس کی تنہائی کی وجہ سے ہی جارحیت کا سامناہے۔۔ کیونکہ وہ نیٹو کا حصہ ہے نہ امریکہ اور برطانیہ سمیت کسی بڑی طاقت کا دوست۔۔ میمورنڈم کے نام پر دھوکے سے اس کے جوہری ہتھیار ختم کروا کراسے کمزور کردیاگیا۔ ۔ روس کی امریکی و برطانوی بینکوں میں رقوم منجمد کرنا ایک دکھاوا ہی ہے۔۔ آج منجمد کئے ہیں کل دوبارہ اوپن ہو جائیں گے اسے کوئی ملک یا ادارہ استعمال تو نہیں کرسکتا۔

دنیا مفادات کی بچاری اور بہت بے رحم ہے۔۔ آج جب یوکرین میں انسانوں کے پرخچے اڑ رہے ہیں۔۔ انسانی جسم آگ اور خون میں نہا رہے ہیں۔۔ انفراسٹرکچر تباہ ہو رہا ہے۔۔ بچے بوڑھے ، خواتین اس جنگ کا ایندھن بنے ہوئے ہیں۔ چیخ و پکار ہے تو باقی دنیا اپنے معمولات میں گم ہے۔۔ کوئی سوشل میڈیا پر مناظر دیکھ کر پریشان ہے کوئی مذمت کر دیتاہے۔

لیکن اس کے باوجود یوکرینی فلسطینیوں اور کشمیریوں سے زیادہ خوش قسمت ہیں کہ اخلاقی طور پر ان کا درد محسوس کرنے والوں کی تعداد زیادہ ہے ۔۔جنگ کا جمعہ25فروری کو دوسرا دن تھا مگر سوشل میڈیا پر لہو لہان بچوں اور عورتوں کی تصاویر کے ساتھ ہزاروں لوگ ان کا درد محسوس کرتے اور آواز بلند کرتے بھی نظر آئے۔۔ خاص کر مغرب کے وہ جو لوگ فلسطین اور کشمیر میں ایسے مناظر دیکھنے کیلئے بینائی سے محروم ہیں۔

Comments are closed.