پاکستان ریلوے کے پنشنرز اور مشکلات
محمد انور بھٹی
پیارے ملک پاکستان میں ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ریٹائرڈ ملازمین پنشنرز کیلئے اس آسما ن کو چھوتی مہنگائی کے دور میں حکومت وقت کی طرف سے کچھ آسانیاں پیدا کی جائیں تاکہ وہ اپنی زندگی اور بڑھاپے کے یہ ایام جو کہ آرام اور سکون کے ساتھ گزارنے کیلئے ہوتے ہیں کو آسان اور سہل طریقے سے گزار سکیں۔
پینشن حاصل کرنے والے ملازمین اپنی زندگی کے قیمتی سال مُلک اور قوم کی خدمت میں صرف کردیتے ہیں۔ خواں وہ کسی شعبہ سے تعلق رکھتے ہوں ۔ وہ بڑی محنت ۔ لگن اور جانفشانی کے ساتھ اپنے فرائض سر انجام دیتے ہیں۔ جب وہ اپنی جوانی اپنے محکموں پر قربان کرکےبڑھاپے کی دہلیز کو چھوتے ہیں تو ریٹائرڈ ہوتے ہیں۔
اس دورانِ باقی کئی اقسام کے مسائل کے ساتھ ساتھ بڑے مالی مشکلات کا سامنا درپیش ہوتا ہے۔ایک طرف اولاد جوانی میں قدم رکھ چکی ہوتی ۔جہاں بیٹیوں کے ہاتھ پیلے کرنے ہوتے ہیں اور بیٹوں کے سر پر سہرے سجانے کے ساتھ ساتھ سر پر چھت نہ ہونے کے سبب خاندان کیلئے رہائش جیسے مسائل سے بھی دوچار ہونا پڑتا ہے۔
ریٹائر منٹ کے بعد تنخواہ بھی آدھی رہ جاتی ہے اخراجات کم نہیں ہوتے بلکہ بڑھتے چلےجاتے ہیں آج مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔ جس کے سبب یوں تو ملک کے تمام پنشنرز سخت مالی مشکلات کا شکار ہیں ۔ مگر میں یہاں پر سرِدست پاکستان ریلوے کے پنشنرز بیواؤں اور ان کے یتیم بچوں کا ذکر کرنا ضروری سمجھتاہوں۔
حکومت وقت کی طرف سے محکمہ ریلوے کے پنشنرز بیواؤں اور یتیم بچوں کے ساتھ سوتیلی ماں کا سا سلوک اور برتاؤ رواں رکھا جارہاہے۔بلکہ ان ریٹائرڈ ملازمین کے حالات کو دیکھتے ہوئے میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ اس معاملے میں حکمران طبقہ کی بے حسی اپنی آخری حدود کراس کر چکی ہے۔پاکستان ریلوے کے ملازمین اپنی سروس مکمل کرکے ریٹائرڈ ہوکر دو دو سال سے اپنے گھروں کو جاچکے ہیں۔
فنڈ کی کمی کا بہانہ بناکر تا حال اُنکو اُنکی گریجویٹی اور باقی مراعات سے محروم رکھا جارہا ہے جو کہ اُن کا بنیادی حق ہے۔اسی طرح سروس کے دوران یا بعد از ریٹائرمنٹ جو ملازم وفات پاچکے ہیں ۔ ظلم کی یہ حد ہے کہ اُن کی بیواؤں اور یتیم بچوں کو بھی اُ ن ملنے والی ہر سہولت سے محروم رکھا جارہا ہے۔اُ ن کے تمام کیسسز دفتروں کی نظر ہوئے پڑے ہیں۔
اُن بیواؤں اور اُ ن کے یتیم بچوں کی داد اور فریاد سننے والاکوئی نہیں ہے، آخر وہ جائیں تو کہاں جائیں؟ اسی طرح پچھلے دوسال سے بیواؤں کو ملنے والا بہبود فنڈ ، میرج گرانڈ فنڈ،فیئر ویل گرانٹ اور باقی تمام دوسرے فنڈ تعطل کا شکار ہیں ۔پاکستان ریلوے سے ریٹائرڈ ہونے والے ملازمین ، بیوائیں اور ان کے یتیم بچے بے سرو سامانی اور کمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں.
ان کی داد رسی کرنے والے اور فریاد سننے والے بے حسی کی چادر لپیٹ کر سوئے ہوئے ہیں اور سب اچھا ہے کے راگ الانپ رہے ہیں۔پنشن اتنی قلیل ہے کہ وہ بمشکل دس پندرہ روز سے زیادہ کا ساتھ نہیں دیتی ہے دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ اس منہ زور مہنگائی کے آگے گورنمنٹ کے وہ ملازمین جو کہ سولہ اور سترہ اسکیل سے ریٹائرڈ ہوئے ہیں وہ بھی پہلی تاریخ تک نہ جانے کتنی بار اُنگلیوں پر دن گنتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
پھر اندازہ کیجئےگا جن بوڑھے ضعیفوں اور بیواؤں کو پنشن بارہ سے پندرہ ہزار ملتی ہوگی تو ذرا سوچئے نہ جانے ان کے گھروں کے چولہے کیسے جلتے ہونگے، وہ کس قدر اذیت ناک زندگی گزارنے پر مجبور ہونگے، اُن کے بچوں کی زندگی کیسی ہوگی۔ کیا اُن کو کھانے کے لیے گوشت،مرغی یاپھر چائے، انڈا اوراور پراٹھا میسر آتا ہوگا۔ تو پھر بتائیے گا جب اِن غریبوں کے بچونکومتوازن غذا اور آسودہ ماحول میسر نا آپائے گا تو اُن کی جوانی کیسے پروان چڑھے گی۔
اِنکی جسمانی اور دماغی کیفیت کیسی ہوگی۔ تو وہ بچے کس طرح سے ملک وقوم کے معمار بن پائیں گے، یہ تمام صورت احوال حالات وواقعات تو اپنی جگہ پر موجود تھے ۔ مگر اس کا کیا کیا جائے کہ پچھلے چند ماہ سے ریلوے کے ریٹائرڈ پنشنرز کو ایک اور گھمبیر مشکل کا سامنہ درپیش ہے کہ اب ریلوے پنشنرز کو اُن کی ماہانہ ملنے والی پنشن بھی بروقت ادا نہیں کی جارہی ہے۔
یہ معاملہ صرف اور صرف ریلوے کے پنشنرز کو درپیش ہے۔ جوکہ سب اچھا ہے کا راگ الانپنے والوں کے چہرے پر زور دار طمانچہ ہے، آخر یہ کس کی ذمہ داری ہے کس کے فرائض منسبی میں شامل ہے کیا اس کے ذمہ دار ی موجودہ حکمرانوں پر نہیں ہے کہ وہ ان تمام مسائل کا حل تلاش کریں۔
ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ مہنگائی کے تناسب سے انکی پنشن میں خاطر خواں اضافہ کیا جاتا ان ضعیفوں اور لاچار بزرگوں کی صحت اور علاج ومعالجہ کی مد میں کوئی خاطر خوان اقدامات اُٹھائے جاتے۔ نا کہ ان کو عمر کے اس حصے میں دھکے کھانے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ اس کو ریل کے پنشنرز کے ساتھ ظلم اور ناانصافی اور سوتیلی ماں والا برتاؤ نا کہا جائے تو پھر اس کو کیا نام دیا جائے۔
بجائے اس کے کہ اُن کو اُنکی پنشن ٹائم پر ادا کی جائے اس کہ جگہ نت نئے بہانے بناکر اُن کی روز مرہ زندگی کو عذاب بنایا جارہا ہے، میری ارباب اختیار سے جوکہ ان کے مسائل اور مصائب سے آنکھیں بند کئے بیٹھے ہیں۔ جنہوں نے اِن ضعیفوں ،لاچار ،بیواؤں اور یتیموں کی مشکلات پریشانیوں سے نظریں چرا کر بیٹھے ہوئے ہیں ان سے اپیل ہے کہ خدارا اپنی آنکھیں کھولئیے ان کی مشکلات اور پریشانیوں سے قطعہ نظر نہ فرمائیں یہ بہت مظلوم اور لاچار ہیں۔
لہذا ان کے درد اور دکھ کا احساس کریں اِ ن ریلوے ملازمین ، بیواؤں اور یتیموں کے تمام واجب الادا بقایا واجبات عزت اور وقار کے ساتھ بروقت ادائیگی کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ اِ نکو ملنے والی پیشن کو بھی مقررہ تاریخ پر ادائیگی کے لئیے یقینی بنایا جائے۔تاکہ وہ اس کمپرسی اور مایوس کن زندگی سے باہر آسکیں۔
یاد رکھنا ان ان کے ساتھ یہی رویے رواں رکھے جاتے رہےتو جو مجھے نظر آرہا ہے مجھے ایک ہی صورت حال بنتی دکھائی دے رہی ہے کہ وہ مایوس اور بد دل ہوکر احتجاج پر مجبور ہو جائیں گے ۔ اور ایسے میں جب یہ ضعیف العمر بوڑھے ،بیوائیں اور یتیم بچے اپنے جائز حقوق کے حصول کی خاطر جب ریلوے اسٹیشنوں اور ریلوے ٹریک پر دھرنا دے کر بیٹھ جانے پر مجبور ہوجائیں گے تو پھر ناتو ارباب اختیار کے پاس اور نا ہی حکومت وقت کے پاس ایسی طاقت اور قوت ہوگی جو کہ انہیں وہاں سے اُٹھا پائے گی۔
کیونکہ یہ پھر روزانہ گھٹ گھٹ کر مرجانے کی بجائے ایک ہی بار مرجانے کو ترجیح دیں گے۔اس سے پہلے کہ حالات اس نہج پر پہنچ جائیں ۔ حکومت وقت اور ارباب اختیار کو پہلی فرصت میں اس طرف اپنی توجہ مبذول کر لینی چاہئے ابھی بھی وقت ہے ایسا نا ہوکہ وقت گزر جائے۔
حالات بگڑ جائیں ۔ پھر ناتو بانس رہے گا اور ناہی بانسری اور ناہی کوئی سب ٹھیک ہے کی بانسری بجانے والا بچے گا.
لفظوں کو بیچتا ہوں پیالے خرید لو
شب کا سفر ہے کچھ تو اُجالے خرید لو
مجھ سے نہ امیرِ شہر کا ہوگا احترام
میری زباں کے لئے تالے خرید لو.
Comments are closed.