صدارتی نظام کی فضول بحث
سلیم صافی
صدارتی نظام کا مطلب یہ ہے کہ پورے آئینی ڈھانچے کو تبدیل کرنا ہوگا جس کے لیے تمام اور بالخصوص بڑی جماعتوں کا اتفاقِ رائے ضروری ہے۔
صدارتی نظام کی حمایت پی ٹی آئی کے منشور میں بھی شامل نہیں۔ مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی، جے یو آئی،جماعتِ اسلامی، اے این پی، بی این پی کے دونوں دھڑے اور پی کے میپ سمیت تمام قابلِ ذکرجماعتیں پارلیمانی نظام کی حامی اور صدارتی نظام کی شدید مخالف ہیں۔ یوں آئینی اور قانونی طریقے سے صدارتی نظام لاگو کرنے کا کوئی امکان نہیں تو پھر اس فضول بحث کا کیا جواز ؟
حقیقت تو یہ ہے کہ صدارتی نظام کی اپنی خوبیاں اور خامیاں ہیں اور پارلیمانی نظام کی اپنی خوبیاں اور خامیاں ہیں لیکن اصل مسئلہ نظام کا نہیں بلکہ سوسائٹی، ریاست کے مختلف ستونوں کے تعلقاتِ کار، سیاسی قیادت کی پختگی اور ناپختگی اور سب سے بڑھ کر نظام چلانے والے افراد کار کا ہے۔
صدارتی نظام کے چند ایک حامی امریکہ کی مثالیں دیا کرتے ہیں لیکن یہ نہیں بتاتے کہ انگولا، گیمبیا، پانامہ، پیراگوئے، سوڈان اور زمبابوے میں بھی اسی طرح کا صدارتی نظام ہے۔ جب وہاں کی سول سوسائٹی امریکہ جیسی مضبوط نہیں، جب وہاں جمہوری اقدار امریکہ جیسی توانا نہیں،تو اُن کی حالت پاکستان سے بھی بدتر کیون ہے۔
خود امریکہ کی سرحد پر واقع میکسیکو میں بھی صدارتی نظام ہے لیکن وہاں یہ نظام وہ خوشحالی نہیں لاسکا جو امریکہ میں لایا ہے۔ اسی طرح امریکہ کی دوسری سرحد پر کینیڈا میں صدارتی نظام نہیں لیکن وہ امریکہ سے زیادہ ویلفیئر اسٹیٹ ہے۔
دوسری طرف اگر پارلیمانی نظام کو دیکھیں تو برطانیہ، جاپان اور آسٹریلیا جیسے ممالک نے پارلیمانی نظام کے ساتھ ترقی کی ہے جبکہ برطانیہ کی پارلیمانی جمہوریت تو پوری دنیا کے لیے مثال سمجھی جاتی ہے۔
اگرچہ پاکستان میں کسی ایک دن کے لیے بھی حقیقی معنوں میں پارلیمانی جمہوری نظام نہیں رہا اور زیادہ تر عرصہ ایوب، یحییٰ، ضیا اور مشرف کے ادوار میں عملاً صدارتی نظام رائج رہا۔
یقیناً ان کا انتخاب امریکی صدر کے طریقہ کار کے مطابق ہوا تھا اور نہ پورا نظام صدارتی تھا لیکن عملاً اختیارات ایک فرد یعنی صدر کے پاس رہے۔ لیکن نام کی حد تک پاکستان میں پارلیمانی نظام ضرور رائج ہے، اب حکومتوں اور مقتدر حلقوں کی ناکام پالیسیوں پر بعض لوگ پارلیمانی نظام کو موردِ الزام ٹھہرارہے ہیں۔ حالانکہ یہی پارلیمانی نظام پڑوسی ملک انڈیا میں کامیابی سے چل رہا ہے اور بے تحاشہ مسائل کے باوجود کوئی بھی یہ نہیں کہہ رہا کہ صدارتی نظام لانا چاہئے۔
ہمارے پڑوس میں اشرف غنی کی حکومت امریکہ کے صدارتی نظام کے چربے کے تحت چل رہی تھی لیکن جب باقی عوامل ساتھ نہیں دے رہے تھے تو ان کی حکومت ہی نہیں بلکہ پورا ری پبلک ریت کی دیوار ثابت ہوا۔
یوں نظام کوئی بھی مطلقاً اچھا ہے اور نہ مطلقاً برا۔ اصل مسئلہ چلانے والوں کا ہے۔ اگر مقننہ،عدلیہ،فوج، بیوروکریسی اپنا اپنا کام اپنے اپنے دائرے میں صحیح طریقے سے کرے تو ہر صدارتی نظام بھی ڈیلیور کرسکتا ہے اور پارلیمانی بھی لیکن وہ اگراپنا کام صحیح طریقے سے نہ کرے اور ایک دوسرے کے دائرے میں مداخلت کرے تو کوئی بھی نظام ڈیلیور نہیں کرسکتا۔
پاکستان میں اس وقت حقیقی مسائل معیشت، سول ملٹری ریلیشن شپ، اندرونی اور بیرونی سلامتی کے درپیش ہیں۔ بلوچستان، کراچی، قبائلی اضلاع اور دیگر علاقوں میں بے چینی ہے۔ ملکی معاشی خودمختاری ختم ہوتی جارہی ہے اور معیشت کا مہار آئی ایم ایف کے ہاتھ میں آگیا ہے۔
نیشنل سیکورٹی پالیسی میں بجا طور پر کہا گیا ہے کہ سلامتی کا انحصار معاشی استحکام پر ہے اور پھر نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر معید یوسف آن ریکارڈ میرے ساتھ انٹرویو میں یہ کہہ چکے ہیں کہ ہم چونکہ معاشی طور پر آزاد نہیں، اس لیے ہماری خارجہ پالیسی بھی آزاد نہیں۔
اس تناظر میں دیکھا جائے تو صدارتی نظام کا پنڈورا باکس کھولنا یا پھر کے طاقت کے بل پر اس کےنفاذ کی کوشش کرنا ملکی سلامتی سے کھلواڑ کے مترادف ہے ۔یوں یہ بحث فی الفور بند کروا دینی چاہیے۔
نہ جانے صدارتی نظام کا شوشہ چھوڑنے والے یہ حقیقت کیوں بھول جاتے ہیں کہ یہ امریکہ یا چین نہیں بلکہ پاکستان ہے۔ یہاں بلوچ بھی ہیں، پختون بھی ہیں، سندھی بھی ہیں،مہاجر بھی ہیں، سرائیکی بھی ہیں، پنجابی بھی ہیں، کشمیری بھی ہیں اور گلگت بلتستان والے بھی۔ ہر قوم کی اپنی اپنی تاریخ ہے اور یہ ماضی میں مختلف ریاستوں کا حصہ رہے ہیں۔
موجودہ آئین ذوالفقار علی بھٹو، مولانا مفتی محمود، پروفیسر غفور احمد، خان عبدالولی خان، مولانا شاہ احمد نورانی اور اسی کیلیبر کی قدآور شخصیات نے بڑی محنت کے بعد تمام پہلوئوں کو مدنظر رکھ کر بنایا تھا اور پارلیمانی نظام کو سوچ سمجھ کر اس لیے چنا کہ تمام قومیتوں کو مطمئن رکھا جاسکے۔
گورنر پختونخوا صدارتی نظام میں یہ دلیل لائے ہیں کہ اس سے موروثی سیاست کا خاتمہ ہوجائے گا حالانکہ موروثی سیاست کا صدارتی یا پارلیمانی نظام سے کوئی تعلق نہیں۔ کیا امریکہ جیسے ملک میں کینیڈی، بش اور کلنٹن خاندانوں کی موروثیت نہیں چل رہی جبکہ دوسری طرف جمہوری تسلسل کی وجہ سے انڈیا میں موروثی سیاست کمزور ہوتی جارہی ہے۔
ایک اور دلیل وہ یہ دے رہے ہیں کہ وزیراعظم ممبران اسمبلی سے وزرا لینے پر مجبور ہیں اور ان کے ہاتھوں بلیک میل ہوتے ہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ کے پاس اب بھی یہ اختیار ہے کہ وہ مشیروں اور معاونین خصوصی کی صورت میں ماہرین کو وزارتیں دیں لیکن یہاں تو ماہرین کی بجائے زلفی بخاری اور شہباز گل لائے جاتے ہیں۔
اب اس میں پارلیمانی نظام کا کیا قصور۔ لیکن اگر کوئی سنجیدہ ہے تو پورے نظام کو چھیڑنے کی بجائے ایک انتظامی آرڈر سے ممبران پارلیمنٹ کے ترقیاتی بجٹ کو ختم کیا جاسکتا ہے اور حقیقی معنوں میں بلدیاتی حکومتیں قائم کرکے یہ کام ان کو سونپا جاسکتا ہے۔ اس کے لیے صدارتی نظام لانے کی کیا ضرورت ہے؟
اسی طرح نظام بدلنے کی بجائے ایک ترمیم یہ کی جاسکتی ہے کہ وزرا ممبران پارلیمنٹ سے نہیں لیے جائیں گے بلکہ ماہرین کو وزرا بنا کر قومی اسمبلی اور سینیٹ کو ان کی تقرری اور مواخذے کا اختیار دیا جائے۔ یوں امریکہ کے صدارتی نظام کا یہ واحد حسن ہمارے پارلیمانی نظام کے اندر آجائے گا۔
سوال یہ ہے کہ یہ صدارتی نظام کی بحث اس وقت کیوں؟ میں نے اس پر بہت سوچا اور بہت تحقیق کی۔ یقین جانیے مجھے اس کے سوا کوئی جواب نہیں ملا کہ حکومت اور اس کے سرپرست اپنی ناکامیوں سے توجہ ہٹانے کے لیے یہ بحث چھیڑچکے ہیں اور اسے مزید طول دینا چاہتے ہیں۔
خواب دیکھنے پر کوئی پابندی نہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش ہورہی ہے اور نہ ہی اس کے نفاذ کا اس وقت کوئی امکان ہے۔
( بشکریہ روزنامہ جنگ)
Comments are closed.