خونی ملکہ کوہسار۔۔۔۔پتھر دل باسی

49 / 100

بابا بہت ٹھنڈ لگ رہی ہے یہ سڑک کب کھلے گی اور ہم گھر جا ئیں گے؟۔۔۔بابا بہت بھوک لگی ہے صبح سے کچھ کھایا بھی نہیں۔۔۔ بابا آپ تو کہہ رہے تھے کہ فون پر انکل نے کہا ہے کہ برف ہٹانے والی گاڑی جلد ہی آتی ہو گی۔۔مگر اب تو دوبارہ سے رات ہو گئی ہے کیا ہم آج رات بھی بھوکے پیاسے یونہی گاڑی میں سو جائیں گے؟

۔۔۔پولیس انکل کو فون کریں نہ تاکہ وہ آکر ہماری پھنسی ہوئی گاڑی ہی نکال دیں۔۔۔ یقینا یہ ہی سب باتیں ملکہ کوہسار کی آغوش میں ابدی نیند سو جانے والے بچوں نے اپنے والدین سے کی ہونگی۔۔۔آہ دل انتہائی رنجیدہ ہے۔۔بے بسی اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ جب سے یہ واقعہ سنا تو خود کو کوس رہا ہوں کہ میں وہاں موجود کیوں نہ تھا۔۔۔

اگر موجود ہوتا تو شاہد لوگوں کی کچھ مدد کر پاتا۔۔۔خیر خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا۔۔۔۔پورے ملک کے ادارے اور مری میں موجود لاکھوں مقامی افراد کی آبادی اگر بروقت کچھ نہیں کر پائی تو مجھ جیسی حقیر شخصیت نے وہاں کیا کر لینا تھا۔۔۔اور تو اور وفات پا جانیوالا پولیس ملازم بھی اس قدر بے بس نکلا،،کبھی سوچا نہ تھا ۔۔

پولیس جس کو معاشرے میں تحفظ کی علامت سمجھا جاتا ہے اگر خود اپنے لئے انتی غیر محفوظ ہے تو پھر کیا فائدہ ایسی نوکری کا؟
اب عدالت نے اپنی رپورٹ میں محکمہ جنگلات، محکمہ ہائی وے، ٹریفک پولیس اور ریسکیو اداروں کو واقعہ کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔دیکھتے ہیں ان میں سے کتنوں کو سزا ملتی ہے اور کون قصور وار ٹھہرتا ہے۔۔

دراصل قصور وار تو ہم سب بھی ہیں اور وہ سب بھی ہیں جو راستوں میں گاڑیاں کھڑی کر کے برف ہٹانے کے بجائے برف پھینک کر بھاری پیسوں کا مطالبہ کرتے رہے،وہ سب بھی قصوروار ہیں جو ایک یا دو ہزار روپے والے کمرے چالیس یا 50ہزار روپے تک دیتے رہے۔۔۔ہوٹل سیل کرنے سے کیا ہوگا؟ جرمانے کرنے سے کیا فرق پڑے گا؟

ملزمان تو پھر بھی آزاد ہی ہیں۔۔میں تو کہتا ہوں اس واقعے کے بعد ایسے تمام ہوٹلز کو تاحیات بند کر دینا چاہیے اور ان کے مالکان کو بھی کچھ دن ذرا جیل کی آب و ہوا کھا لینے دیں اور ان سے بھی ضرور پوچھا جانا چاہیے جو کئی سوروپے کے عوض ایک چائے کا کپ بیچتے رہے۔۔محکمہ سنو کلئیرنگ ڈیپارٹمنٹ سے تو اچھی خاصی باز پرس ہونی چاہیے کیونکہ برفباری کے دوران سڑکوں سے برف ہٹانے کا کام تو ان کا ہے۔

میں نے ہمیشہ سنا تھا کہ پیسہ آنکھوں پر پٹی باندھ دیتا ہے اور انسان کو اپنی حوس کا اس حد تک شکار بنا لیتا ہے کہ مارے لالچ کے لالچی شخص کو پیسے کے علاوہ کچھ دکھائی نہیں دیتا۔۔خون سفید ہو جاتا ہے۔۔سانحہ مری میں یہ سب کچھ دیکھ بھی لیا کہ کسی طرح وہاں کے ہوٹلز مالکان اور مقامی لوگوں کی آنکھوں پر پیسوں کی حوس کی پٹی بندھی تھی جس نے انہیں لوگوں کی زندگیاں بچانے سے روک رکھا تھا۔

افسوس کی بات ہے کہ آج تک حکومت کے پاس قدرتی آفات سے نمٹنے کا کوئی نظام موجود نہیں۔واقعے کے بعدبرف ہٹانے کیلئے بھی مشینری دوسرے علاقوں سے منگوائی گئی۔… سیلاب آئے، زلزلہ آئے یا برفباری ہر بار ہماری حکومتیں دعویٰ کرتی ہیں کہ قدرتی آفات سے نمٹنے کیلئے پورا بندوبست کرلیاہے پر ہمیشہ دیرسے انتظامات کئے جاتے ہیں۔

ایسے انتظامات کا کیا فائدہ جو21جانیں لینے کے بعد حرکت میں آئیں؟
سانحہ مری ہمارے ذہنوں پر ہی نہیں بلکہ دلوں پر بھی پچھتاوے کے ان مٹ نقوش چھوڑ گیا ہے۔۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ سانحہ مری میں وفات پا جانے والوں کی مغفرت فرمائیں اور انکے لواحقین کو یہ صدمہ برداشت کرنے کی قوت عطا فرمائیں۔آمین

Comments are closed.