قائد اعظم یونیورسٹی سے کھلا خط
انصار عباسی
قائد اعظم یونیورسٹی کے طلبہ کا ایک کھلا خط سوشل میڈیا پر گردش کر رہا ہے، یہ مجھے بھی بھیجا گیا۔ اِس کھلے خط میں کچھ ایسی باتیں درج ہیں جو ہماری جامعات کے ساتھ ساتھ حکومت اور دوسرے ذمہ داروں کے لیے بھی قابلِ غور ہیں تاکہ ہماری جامعات میں اگر واقعی کچھ غلط ہو رہا ہے تو اُسے روکا جائے۔
یاد رہے کہ قائداعظم یونیورسٹی پاکستان کی بہترین جامعات میں سے ایک ہے اور اگر اِس درس گاہ میں بھی وہ کچھ ہو رہا ہے جس کا اِس کھلے خط میں ذکر ہے تو یہ قابلِ افسوس ہے۔ اِس کھلے خط میں شامل نکات کی تفصیل کچھ یوں ہے:
’’اِس یونیورسٹی میں آئے روز رونما ہونے والے واقعات، پروان چڑھتے منفی رویے اور انسانوں کو نسلی بنیاد پر تقسیم کرنے والے افکار یقیناً ہر ذی شعور انسان کے لیے پریشان کن ہیں اور کسی اوسط درجے کے مہذب انسان کے لیے بھی ان کو گوارا کرنا قریب قریب ناممکن ہے۔
گویا قائداعظم یونیورسٹی کی تصویر کا ایک رُخ جتنا دلفریب اور خوشنما ہے، دوسرا رخ اُتنا ہی دقیانوسی اور بدنما۔ اِس یونیورسٹی کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ یہاں پر سب کو فکر و عمل کی آزادی میسر ہے مگر حقیقتِ حال یہ ہے کہ آزادی کے نام پر آزادی کا جس قدر استحصال اِس یونیورسٹی میں کیا جاتا ہے اُس کی مثال کسی قبائلی سماج میں بھی ملنا مشکل ہے۔
یہاں دقیانوسی نسلی مائنڈ سیٹ کو تو ہر طرح کی مادر پدر اور شتر بےمہار آزادی حاصل ہے اور اِس سے اختلاف کرنے اور ادنیٰ اور اعلیٰ انسانی افکار کو اپنانے کا حق کسی کو حاصل نہیں لیکن اگر اِس مخصوص طرزِ فکر و عمل کے دائرے سے نکل کر کوئی کچھ سوچنے، بولنے اور کرنے کی جسارت کر ہی لے تو اس کے لیے یہی قائداعظم یونیورسٹی ایک عقوبت خانے میں تبدیل ہو جاتی ہے۔
. 22دسمبر 2021کو پانچ طلبہ کے اغوا کا واقعہ اِس کی تازہ ترین مثال ہے۔ جب اُن طلبہ کو یونیورسٹی کی ایک فکری تنظیم سے تعلق رکھنے کی وجہ سے نسل پرست لسانی کونسلز کی جانب سے اغوا کیا گیا تو ان کے موبائل فون ڈیٹا سے چیزیں نکال کر ایک ہجوم کے سامنے لائی گئیں اور وہاں اُن پر دینِ اسلام کی تبلیغ اور دیگر الزام لگائے گئے۔
اغواء کاروں نے اُن طلبہ پر مختلف الزمات لگا کر ہجوم کو اشتعال دلانے کی بھرپور کوشش کی۔ مثلاً ایک بےبنیاد الزام یہ لگایا کہ اغوا ہونے والے طالب علموں نے سندھی اجرک کو جلایا تھا تاکہ سندھ سے تعلق رکھنے والوں کو مشتعل کیا جا سکے۔ خیر اِس واقعے کی اطلاع ملنے پر اسلام آباد اور یونیورسٹی کی انتظامیہ کو بروقت مطلع کیا گیا.
لیکن اطلاع ملنے کے باوجود اُنہوں نے کوئی ایکشن نہیں لیا۔ اسلام آباد انتظامیہ نے بالآخرکئی گھنٹوں بعد 3طالب علموں کو بازیاب کروا لیا لیکن دو طالب علموں کو 24 گھنٹوں بعد بازیاب کروایا گیا۔ جن طالب علموں کو اغوا کیا گیا تھا اُن کے مطابق اُن کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا.
اُن کے شناختی کارڈز اور موبائل فون چھین لیے گئے، اُن سے بالجبر بیانات ریکارڈ کروائے گئے، وڈیوز بنوائی گئیں۔ چھینی ہوئی اشیا تاحال کونسلز والوں کے پاس ہیں اور وہ اِن کو غیرقانونی طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ اِس کے علاوہ اغوا شدہ طالب علموں پر تبلیغِ دین کا الزام لگایا گیا.
اسی ’’جرم‘‘ کی پاداش میں اُن پر ظلم روا رکھا گیا، یہ تمام باتیں ایک وڈیو کلپ میں بالکل واضح طور پر دیکھی اور سنی جا سکتی ہیں جس میں قوم پرست کونسل کے عہدیداروں اور دیگر لوگوں کو واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ ایک طویل جدوجہد کے بعد پولیس نے 5معلوم اور چند نامعلوم لوگوں پر ایف آئی آر درج کی۔
یونیورسٹی انتظامیہ اس سارے معاملے میں خاموش تماشائی بنی رہی اور طلبہ کے تحفظ کو یقینی بنانے کی اپنی ذمہ داری کو پورا کرنے میں بری طرح ناکام رہی۔ یہ فقط ایک مثال ہے، یہاں بےشمار ایسے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔
میں پوری سنجیدگی سے فکر کی آزادی کی قدر کرنے والے دوستوں سے درخواست کرتا ہوں کہ اِس یونیورسٹی میں آپ کا لبرل نام اور چہرہ وہ لوگ استعمال کر رہے ہیں جن کو لبرل ازم کا مطلب تک نہیں معلوم۔ یعنی یہ کون سا لبرل ازم ہے جو آپ کو اپنے نظریات، افکار رکھنے اور ان کا اظہار کرنے سے روکتا ہے.
ناصرف روکتا ہے بلکہ استبداد اور تشدد اختیار کرتا ہے؟ یہ کون سی آزادیٔ اظہارِ رائے ہے جو صرف 6قوم پرست لسانی کونسلوں کو ہی اجازت دیتی ہے کہ آپ ہی آپ ہیں اور کسی دوسرے علاقے جیسا کہ کشمیر اور ہزارہ کو کیوں اپنی تنظیم بنانے کی اجازت نہیں ہے؟
کیوں کسی سیاسی پارٹی کے ونگ (جمعیت، آئی ایس آف، پی ایس آف، ایم ایس آف وغیرہ) کو اجازت نہیں ہے؟ بولنے پہ پابندی، سوچنے پہ تعزیریں۔۔۔ کوئی اس جبر کے خلاف بولے تو زبان کھینچ لی جائے، کوئی قلم اٹھائے تو ہاتھ قلم کر دیے جائیں، کوئی چلنا چاہے تو پیر کاٹ ڈالیں.
کوئی اس خوابیدہ سماج میں کروٹ لینا چاہے تو کمر توڑ دیں۔ یعنی اس یونیورسٹی میں ایک مخصوص طبقے کی دقیانوسی سوچ، فکر اور طرز عمل کے لیے تو سب طرح کی آزادی ہے، اس کے سوا باقی سب کے لیے اس فسطائیت کے پاس ایک ہی تحفہ ہے یعنی جبر و تشدد!
یہ تمام تر اسباب اور عوامل قائداعظم یونیورسٹی میں زیر تعلیم مستقبل کے معماروں کو ہر پہلو سے تباہ کر رہے ہیں۔ آپ سے التماس ہے کہ اپنی آواز اٹھائیں اور قائداعظم یونیورسٹی اور شہری انتظامیہ سے گزارش ہے کہ اپنی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے یونیورسٹی کے اس قضیے کو سنجیدگی سے حل کرنے کے لیے موثر کوششیں کریں، ورنہ یہ صورت حال کسی المیے کو جنم دے سکتی ہے۔ (بشکریہ روزنامہ جنگ)
Comments are closed.