کرپشن ملک و معاشرے کے لئے ناسور

49 / 100

فہیم خان

کرپشن کینسر کی مانند خطرناک اور سماج کو سماجی موت سے ہمکنار کرنے والا بھیانک مرض ہے کیونکہ لاتعدادبرائیاں اس کی کوکھ سے جنم لیتی ہیں، کرپشن اعلیٰ اقدار کی دشمن ہے جو معاشرے کو دیمک کی طرح اندر سے چاٹ کر کھوکھلا کردیتی ہے۔

یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ قوموں کی تباہی میں مرکزی کردار ہمیشہ کرپشن کا ہی ہوتا ہے، یہ کسی بھی صورت میں ہو، جس قوم میں جتنی زیادہ کرپشن ہو گی، وہ قوم اتنی ہی جلدبربادی کے گڑھے میں جاگرتی ہے۔

کرپشن معاشرے میں ایک اچھوت کے مرض کی طرح پھیلتی ہے اور زندگی کے ہر پہلو کو تباہ کرکے رکھ دیتی ہے جس معاشرے کو لگ جائے اس معاشرے کی بربادی یقینی سمجھیں۔پاکستان کی معیشت کی تباہی اور معاشرے کی تباہی بھی کرپشن ہے، جس نے بھی جس قدر زیادہ کرپشن کرکے مال و دولت اکٹھا کیا.

وہ معاشرے میں اسی قدر بلند مرتبہ ہوگیا اور حمام میں سب ننگے ہوئے تو سب خاموش ہوگئے، دنیا بھر میں حکومتوں کی کارکردگی میں شفافیت اور کرپشن کا جائزہ لینے والی عالمی تنظیم ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے اپنی رپورٹ میں کہناہے کہ جنوبی ایشیا کا خطہ سب سے زیادہ بد عنوانی کا شکار ہے۔

ان ممالک میں اگرچہ انسداد کرپشن کے لئے باقاعدہ سرکاری ادارے قائم ہیں، مگر ان اداروں کے اندر بھی کرپشن داخل ہو چکی ہے، جس کی بڑی وجہ سیاسی مداخلت ہے۔ بااثر افراد بھی بدعنوانی کی بنا پر گرفت میں نہیں آتے۔ یہی وجہ ہے کہ کرپشن کے انسداد کے لئے نیم دلی سے جو کوششیں کی جاتی ہیں، وہ موثر ثابت نہیں ہوتیں۔

دیگر ممالک کی طرح ہمارے ملک پاکستان میں بھی رشوت ستانی اور بدعنوانی کے انسداد کے لئے ادارے اور قوانین موجود ہیں جن میں وفاقی سطح پر ایف آئی اے،نیب ، احتساب عدالتیں، صوبائی سطح پر انٹی کرپشن محکمہ انسداد رشوت ستانی، وفاقی و صوبائی محتسب جیسے ادارے قائم ہیں لیکن یہ بالکل بے اثر دکھائی دیتے ہیں۔

پاکستان میں جن حلقوں پر حالات سدھارنے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے، ان کے رویے سے ایسا معلوم نہیں ہوتا کہ انہیں کرپشن سے ملک کو پہنچنے والے نقصان یا عوام کے مسائل میں اضافے کی کوئی پرواہ ہے، اگر انہیں کسی قسم کی فکریا پرواہ ہوتی تو کرپشن اور بدعنوانی روکنے والے اداروں سے سیاسی مداخلت کو ختم کرتے.

کرپشن کے خلاف موثر اور مضبوط اقدامات کئے جاتے اور افسروں کو بلاخوف و خطر بڑے بڑے کرپٹ مگر مچھوں پر ہاتھ ڈالنے کی آزادی دی جاتی اور حکومت کرپشن کو ختم کرکے دم لیتی، لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہے، کیونکہ ان کی مصلحتیں آڑے آجاتی ہیں اور معاشرہ آہستہ آہستہ تباہی کی طرف گامزن رہتا ہے۔

جب ترقی پذیر ممالک میں بدعنوانی ہوتی ہے تو اس کا بوجھ غریب ترین عوام پر پڑتا ہے۔اس سے سرمایہ کاری رک جاتی ہے،عوام کی ان سہولیات اور مدد میں دھوکا دہی ہوتی ہے جس کی انہیں اپنی معیشت کی ترقی اور امدادکی محتاجی کے خاتمے کے لئے ضرورت ہوتی ہے۔

اگر ہمیں اپنے گھر میں اپنے مقام کو بہتر بنانا اور بدعنوانی کوکم کرنا ہے تو ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔بدعنوانی، فراڈ،منی لانڈرنگ اور ٹیکس نادہندگی کوکچلنا ہمارا اہم فریضہ ہے۔ ہم اس کے اسباب کو جڑوں سے اکھاڑنا ہوگا۔ہمیں بدعنوان افراد کے احتساب، بدعنوان عناصر کو حاصل چھوٹ کے خلاف لڑنے کے لیے بہت سے ذرائع سے کام لینے سمیت بدعنوانی کے خلاف جنگ اور اس میں شہریوں کی شمولیت مضبوط بنانے کے لیے کثیرملکی تعاون کی حکمت عملی سے رجوع کر ناہوگا۔

ہم سلامتی اور جمہوریت کو لاحق اس عالمگیر خطرے کو شکست دینے کے لیے انسداد بدعنوانی کے حوالے سے وعدوں کے مطابق موثر اصلاحات پر عملدرآمد، شفاف اور قابل احتساب اداروں کے قیام اور شہریوں، صحافیوں اور سول سوسائٹی کے اداروں کو بااختیار بنا کر بدعنوانی پر فتح پاسکتے ہیں ۔

Comments are closed.