مجاہد بریلوی
یہ اپریل 1978ء کا ذکر ہے، کراچی پریس کلب میں ایک سینئر کامریڈ نے کہا، ‘آپ کے لیے ایک بڑا اسکوپ ہے۔ کابل میں سردار داؤد کی حکومت کا تختہ اُلٹ کر کمیونسٹوں کی جو حکومت صدر نور محمد کی سربراہی میں آئی ہے اس کی ساری باگ ڈور اجمل خٹک کے ہاتھ میں ہے۔ پشاور میں نیشنل عوامی پارٹی کے ایک معتبر اور قابلِ اعتماد ساتھی مصطفیٰ کمال کو تو آپ جانتے ہی ہیں، بس ان سے مل لیں، ویزا، زادراہ اور اجمل خٹک سے رابطہ وہ کروا دیں گے۔ اور ہاں پشاور سے کابل کا فاصلہ ہے ہی کتنا، 5 گھنٹے کا۔ گورنمنٹ روڈ ٹرانسپورٹ کی بس روزانہ چلتی ہے۔ کرایہ صرف 50 روپے ہے’۔
پھر ہمارے اسی ساتھی نے کابل جانے کا خواب دکھانے کے ساتھ ہماری مُٹھی میں چند نوٹ ٹھونستے ہوئے کہا کہ ‘یہ پشاور تک کے لیے کافی ہیں۔ باقی انتظام پشاور سے ہوجائے گا’، اور پھر ہوا بھی ایسا۔ اگلے دن صبح 8 بجے مصطفیٰ کمال نے ہمیں ایک پرچی دیتے ہوئے کہا، ‘اجمل خٹک کو اطلاع کردی گئی ہے۔ کابل پہنچتے ہی پبلک کال سینٹر سے فون کردیجیے گا۔ 4 دہائی بعد یہ سب ایک خواب لگتا ہے۔
میں اب تک چار مرتبہ افغانستان جاچکا ہوں۔ پہلی مرتبہ 1978، دوسری مرتبہ 1989ء ، تیسری مرتبہ 2006ء میں پی آئی اے کی کابل کی پہلی فلائٹ سے اور پھر وزیرِاعظم یوسف گیلانی کے ساتھ 2011ء میں سرکاری وفد کے ساتھ وہاں جانے کا چوتھی مرتبہ موقع ملا۔ مگر جسے کابل کا سفر کہیں وہ 12 اپریل 1978 کا ہی تھا۔
اس سفر کے بعد ایک اور اہم واقعہ یہ ہوا کہ چونکہ اس وقت پاکستان میں ضیاالحق کے خلاف صحافیوں کی تحریک چل رہی تھی اور افغانستان جانے سے پہلے میں بھی اس میں شریک تھا، اس لیے کابل سے واپسی پر مجھے گرفتار کرلیا گیا اور پھر چند ماہ میں نے جیل کاٹی، اور یہ تحریر حیدرآباد جیل میں ہی لکھی گئی۔
گورنمنٹ روڈ ٹرانسپورٹ کی بس پشاور سے روانہ ہوئی تو صبح کے 8 بجے تھے۔ ‘طور خم’ پر ہم 10 بجے پہنچے۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان صرف ایک فرلانگ کا سرحدی فاصلہ 2 گھنٹے میں طے ہوا۔ پھر دونوں طرف کے امیگریشن والوں کی ٹٹولتی ہوئی آنکھوں اور ہاتھوں سے فارغ ہوتے ہوتے دوپہر ہوچکی تھی۔ بس ڈرائیور جو ان معمولات کا عادی تھا، کہہ رہا تھا ‘آج تو جلدی جان چھوٹ گئی ورنہ کبھی کبھی تو سہہ پہر ہوجاتی ہے’۔ بس میں سوار میں اکیلا پاکستانی صحافی تھا جو کابل جارہا تھا، باقی مسافروں میں تو یا تو غیر ملکی سیاح تھے یا پھر نوکری کی تلاش میں مغربی جرمنی جانے والے پاکستانی نوجوان۔
میرے ساتھ بیٹھا جہلم کا ایک طالب علم سارے راستے پاکستان میں اپنی بے روزگاری کے دنوں کی غربت اور ذلت کا رونا روتا رہا۔ ‘بس جناب، کابل سے ٹکٹ کٹا کر اگر جرمنی پہنچ گیا تو پھر عیش ہی عیش ہیں۔ اپنے کئی گرائیں اُدھر ہیں۔ خط میں تو انہوں نے یہی لکھا ہے کہ آتے ہی 8 سے 10 ہزار پاکستانی روپے کی نوکری مل جائے گی’، اور پھر بس جب کابل شہر میں داخل ہوئی تو وہ جرمنی کے خواب دیکھتا ہوا اپنی سیٹ کے ہتھے پر سر رکھ کر سوچکا تھا۔
کابل شہر میری توقع کے برعکس تھا۔ دو رویہ کشادہ سڑکوں پر دوڑتی ہوئی کاریں اور بسیں، جدید طرز کی بلند و بالا عمارتیں اور فٹ پاتھوں پر تیز تیز قدموں سے اپنی اپنی منزل کی طرف شانہ بشانہ رواں دواں جدید فیشن کے ملبوسات میں خوش و خرم مرد و خواتین۔ کابل شہر کو بس کی کھڑکی سے دیکھتے ہوئے مجھے افغانستان کی پسماندگی کے بارے میں سُنی ہوئی باتیں ایک مذاق معلوم ہونے لگیں۔ مگر یہ روشن سڑکیں، جدید طرز کی عمارتیں اور صحت مند چہرے صرف کابل شہر میں نظر آتے ہیں۔ شہر سے باہر نکلتے ہی افغانستان کی حقیقی پسماندگی کا نقشہ نظر آجاتا ہے۔
‘شہر نو’ میں بس رکی تو شام ہوچکی تھی۔ موسم میں ایک خوشگوار خنکی تھی۔ میری تجسس بھری آنکھیں سڑکوں اور چوراہوں پر اس خوف و ہراس کو تلاش کررہی تھیں جس کی بازگشت 27 اپریل کے انقلاب کے بعد سے مغربی ذرائع ابلاغ عامہ سے بڑے پیمانے پر دنیا بھر میں سنائی دے رہی تھی۔ میں سوچتا ہوں کہ اگر ان سڑکوں اور چوراہوں پر صرف 2 ڈھائی ماہ قبل ہزاروں انسانوں کا خون بہا ہے تو سائنس نے ایسی کون سی چیز دریافت کرلی جس سے میرے اطراف میں چلتے پھرتے چہروں پر زندگی سے بھرپور تازگی ہے۔
بس سے اترتے ہی ٹیکسی مل جاتی ہے جس سے مجھے خوشگوار حیرت ہوتی ہے۔ ٹیکسی ڈرائیور جو چند سال پہلے پشاور میں رکشہ چلایا کرتا تھا کسی ماہر گائیڈ کی طرح کابل شہر کا تعارف کروا رہا تھا، ‘یہ پاکستانی سفارت خانہ ہے اور جناب یہ امریکی سفارت خانہ اور وہ جو دُور تک بائیں ہاتھ کو دیوار چلی جارہی ہے، یہ شاہی محل کی ہے۔ جب سردار داؤد کا تختہ الٹ کر انقلاب آیا تو میں محل کے پچھلے دروازے سے چند فرلانگ پر تھا۔ میں اور میرے مسافر یہ سمجھے کہ شاید کوئی جلوس نکل رہا ہے جس پر پولیس گولیاں چلا رہی ہے کیونکہ چند دن پہلے بھی شہر میں ایک بہت بڑا جنازے کا جلوس نکلا تھا، رات کو گھر پہنچا تو داؤد کا تختہ الٹ گیا’۔
ٹیکسی ڈرائیور مجھے کابل شہر کے قلب میں ایک چوک پر ایک ہوٹل کے سامنے اتار دیتا ہے۔ ساتھ ہی وہ میری گھڑی کو آدھے گھنٹے پیچھے کروا کر میری معلومات میں اضافہ کرتے ہوئے کہتا ہے ‘افغانستان میں وقت پاکستان سے آدھے گھنٹے پیچھے ہوتا ہے، اور ہاں صاحب آپ پاکستانی ہیں ذرا اِدھر اُدھر کا خیال رکھیے گا’۔ میں اس سے اِدھر اُدھر کی تفصیل جاننا چاہتا تھا مگر وہ ٹیکسی لے کر آگے بڑھ گیا۔
ہوٹل کے استقبالیہ پر موجود شخص مجھے دیکھتے ہی مسکرا کر کہنے لگا ‘پاکستانی’ اور پھر چند منٹ میں ضروری کوائف پورے کرکے اس نے مجھے کمرے کی چابی پکڑا دی۔ کابل شہر دیکھنے کی فوری خواہش پر دن بھر کی تھکن غالب آجاتی ہے اور مجھے کھانا کھاتے ہی خلافِ معمول 9 بجے نیند پکڑ لیتی ہے۔
دوسرے دن آنکھ دیر سے کُھلی۔ کچھ بس کی تھکان اور کچھ جمعہ کی تعطیل کے سبب ہوٹل سے نکلتے نکلتے سہہ پہر ہوگئی۔ میں نے سنا تھا کہ کسی نئے شہر کا حقیقی رنگ دیکھنا ہو تو وہ پیدل سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر نظر آتا ہے، اس لیے میں بھی فٹ پاتھ پر ہولیا۔ ہر دوسرے ہوٹل اور دکان میں ریڑھیوں پر افغان صدر نور محمد ترہ کئی کی تصویر نظر آئی۔ کابل کے سب سے بڑے افغان اسٹور سے ہوتا ہوا چند منٹ بعد میں پشتونستان چوک پہنچا۔ افغانستان کی بیشتر اہم سرکاری عمارتیں اسی چوک کے گرد ہیں۔ قومی بینک، ٹیلی گراف آفس، ریڈیو اسٹیشن، وزارتِ دفاع اور وزارتِ خارجہ کا دفتر اور شاہی محل بھی یہیں ہے جو انقلاب کے بعد سے خانہ خلق یا پیپلز ہاؤس کہلاتا ہے۔
شاہی محل سے متعلق لوگوں میں بڑی داستانیں مشہور ہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ دنیاوی ضرورت اور تعیشات کا جو بھی تصور انسانی ذہن میں آسکتا ہے وہ اس محل میں شاہی خاندان کے افراد کے لیے موجود تھا۔
انقلاب کے بعد کئی ہفتے تک شاہی محل کے دروازے عوام کے لیے کھول دیے گئے تھے۔ کابل یونیورسٹی کے ایک طالب جس نے انقلاب کے 5ویں دن شاہی محل کی سیر کی تھی، وہ مجھے بڑے افسردہ لہجے میں بتاتے ہیں کہ ‘ہر چند قدم پر میں اپنی آنکھیں بند کرلیتا تھا اور سوچتا کہ یا خدا کیا یہ سب کچھ ہمارے غریب ملک میں ہی تھا۔ آئینے سے زیادہ چمکدار فرش، ہیرے اور جواہرات سے جڑے دروازے، سوئمنگ پول، کلب، سنیما گھر، آنکھوں کو خیرہ کردینے والے ان مناظر کو دیکھ کر میری سمجھ میں آیا کہ ہمارے عوام جاہل کیوں ہیں، ہمارے گھر کچے کیوں ہیں، سڑکوں پر روشنی کیوں نہیں اور پھر یہ کہ شہنشایت اور آمریت کا جبر کیا ہوتا ہے’۔
مجھے شاہی محل کے بڑے سے دروازے پر اور اردگرد کوئی غیر معمولی حفاظتی پہرا نظر نہیں آیا۔ شاہی محل کے جس حصے پر بمباری کی گئی تھی وہ ویسا ہی کھنڈر کا ڈھیر بنا ہوا تھا۔ ٹینکوں کے چند ڈھانچے بھی فٹ پاتھوں پر درسِ عبرت بنے کھڑے تھے جن سے سردار داؤد کے حامی دستوں نے انقلابیوں کا مقابلہ کیا تھا۔
مجھے ان ٹینکوں کو دلچسپی سے دیکھتے ہوئے ایک نوجوان سکھ نے بڑی صاف و شفاف لاہوری اردو میں پوچھا کہ ‘کیا آپ پاکستانی ہیں؟’۔ میں نے اسے ہاں میں جواب دیتے ہوئے بتایا کہ بس ایک دن قبل ہی کابل پہنچا ہوں۔ بس پھر وہ انقلاب کا آنکھوں دیکھا حال بتانا شروع کردیتا ہے، ‘جناب وہ جو خیبر ہوٹل نظر آرہا ہے، اس کے دائیں ہاتھ پر ہماری کپڑے کی دکان ہے۔ میں اور میرے والد ابھی دکان کھول ہی رہے تھے کہ گولیاں چلنے اور ٹینکوں کی گڑگڑاہٹ کی آواز آنے لگی۔ فوجی گاڑیوں اور سپاہیوں کا ہجوم تھا جو وقت گزرنے کے ساتھ بڑھتا ہی چلا جارہا تھا۔
‘شام کو ہم گھر لوٹے تو ہوائی جہازوں سے بمباری کی آواز بھی ہم نے سنی۔ ان آوازوں کو سننے کے بعد ہم نے سوچا کہ کوئی بڑی گڑبڑ ہورہی ہے مگر توقع نہیں تھی کہ داؤد کا تختہ الٹ دیا گیا ہے۔ رات گئے ہم نے ریڈیو پر سنا کہ داؤد اور اس کے خاندان والے مقابلہ کرتے ہوئے مارے گئے اور انقلابی افغانستان کے حکمراں بن گئے ہیں۔ یہ سن کر تو جناب مجھے بہت حیرت ہوئی۔ اتنا بڑا داؤد اتنی جلدی مرگیا۔ دوسرے دن محل کے سامنے پھولوں سے لدے ہوئے ٹینک کھڑے تھے اور سرخ ستاروں والی قمیض پہنے نوجوان طالب علم ٹریفک کنٹرول کررہے تھے۔’
ہم باتیں کرتے ہوئے شاہی محل کی دیوار کے ساتھ چل رہے تھے۔ دیوار تھی کہ ختم نہیں ہورہی تھی۔ چوراہا آیا تو اس نے مجھ سے کہا کہ یہ تو محل کی پچھلی دیوار تھی۔ لیکن محل کے چاروں طرف کا چکر 40 سے 50 منٹ میں مکمل ہوگا۔ نوجوان سکھ ‘پارک زر نگار’ کے دروازے پر مجھے چھوڑ کر اپنے گھر کی طرف جانے والی بس میں بیٹھ گیا۔ پارک زر نگار کابل شہر کی مرکزی تفریح گاہ ہے۔ شام ہوتے ہی نوجوان لڑکے
لڑکیاں 8 سے 10 کے گروپ میں آنا شروع ہوجاتے ہیں۔ گھنے درختوں سے آتی ہوئی ہلکی ہلکی روشنی میں رات شروع ہونے کے ساتھ ہی ماحول بڑا خواب ناک ہوجاتا ہے۔ پارک میں بے پناہ ہجوم ہے مگر قہقہوں اور سرگوشیوں کی آواز بہت کم بلند ہوتی ہے۔
رات ہونے کے ساتھ ہوا میں خنکی بڑھ رہی تھی۔ میں اپنی گھڑی دیکھتا ہوں جس میں ساڑھے 7 بج رہے تھے۔ میں نے سنا تھا کہ کابل شہر میں 8 بجے کے بعد کرفیو لگ جاتا ہے۔ پارک سے میرے قدم اٹھنے لگے مگر سڑک کی دوسری طرف سنیما دیکھ کر مجھے حیرت ہوئی جہاں تیسرے شو کے لیے لمبی قطار لگی ہوئی تھی۔ کابل میں سنیما کا پہلا شو 2 بجے، دوسرا 5 بجے اور تیسرا 8 بجے ہوتا ہے۔ میں نے سوچا 8 بجے کا شو دیکھنے والے کرفیو کے دوران اپنے گھر کس طرح جائیں گے۔
میں نے پچھلے چند دنوں میں ‘کابل شہر’ سے افغانستان کا ہر رخ دیکھ لیا تھا۔ جدید مغرب زدہ افغانستان کا ظاہری روپ جو کابل شہر کو پہلی نظر دیکھنے سے سامنے آتا ہے، وہ معاشرے کے حقیقی تضادات پر پردہ ڈالے ہوئے ہوتا ہے اور صدیوں سے غربت، جہالت اور قدامت پسندی میں جکڑا ہوا افغانستان، جو مضافاتی بستیوں، پہاڑوں پر بنے، کچے گھروں اور مزاروں اور مسجدوں کی سیڑھیوں پر پڑے مفلوک الحال چہروں میں نظر آتا ہے۔
میں سرکاری اور غیر سرکاری حلقوں میں، طالبِ علموں میں، دانشوروں اور صحافیوں سے گھنٹوں بحث و مباحثہ کرتے ہوئے، مسجدوں، مزاروں اور فٹ پاتھوں پر بیٹھے ہوئے افغانوں سے ٹوٹی پھوٹی اردو میں گفتگو کرتے ہوئے 27 اپریل کے انقلاب کی بازگشت کہیں دھیمی اور کہیں تیز سنتا ہوں۔
کابل یونیورسٹی کے پُرجوش طالبِ علم جو مستقبل سے پُرامید ہیں، انہوں نے انقلاب کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ ان میں سے ایک بڑی تعداد ایسے طالب علموں کی بھی ہے جنہوں نے اس میں اپنا بھرپور حصہ ادا کیا ہے۔ ان میں سے ایک طالب علم جو حکمراں پارٹی کی حامی طلبہ تنظیم کا عہدے دار بھی تھا، مجھ سے کہتا ہے کہ، ‘ابھی صرف نادر شاہی خاندان کی حکومت ختم ہوئی ہے۔ ہمیں معاشرے میں پیوست شہنشایت کے ہر نقش کو کھرچ کھرچ کر مٹانا ہے اس میں خاصا وقت لگے گا’۔
صحافی اور دانشور انقلاب کے مستقبل کے بارے میں کچھ کہتے ہوئے ذرا محتاط تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ‘عوام کو جو آزادیاں ایک بار مل جائیں وہ ان سے واپس چھینی نہیں جاسکتیں۔ مسجدوں اور مزاروں کی سیڑھیوں پر خستہ حال افغان صرف اتنا کہتے ہیں کہ شاہی خاندان والے ختم ہوگئے اب خانہ خلق والے آئے ہیں، دیکھیں یہ عوام کو کیا دیتے ہیں’۔
شاہی خاندان کی حکومتوں میں مراعات یافتہ طبقے کے چند افراد سے بھی میں بڑی تگ و دو کے بعد رابطہ قائم کرنے میں کامیاب ہوتا ہوں۔ اگرچہ وہ انقلاب کے بارے میں اپنا ردِعمل صرف خاموشی سے دیتے ہیں، مگر ان کی آنکھوں سے جھلکتی نفرت انقلاب کے بارے میں اپنے رویے کو نہیں چھپاتی۔
میں انقلاب کے مثبت اور منفی ذہنوں میں 27 اپریل کو آنے والے انقلاب کا مستقبل دیکھتا ہوں اور ہر مقام پر یہ محسوس کرتا ہوں کہ تمام تر اندرونی اور بیرونی رکاوٹوں کے باوجود افغانستان انقلاب کے تیز و تند تھپیڑوں سے گزر رہا ہے۔
افغانستان میں انقلاب کی جو پہلی خبر 27 اپریل کی شام دنیا نے سنی اس پر عام طور پر پہلا ردِعمل یہ تھا کہ کہیں یہ محض ایک فوجی انقلاب تو نہیں؟ انقلاب کے تیسرے دن انقلابی کونسل نے یہ اعلان کرکے دنیا کو حیرت میں ڈال دیا کہ افغانستان کی انقلابی حکومت کے سربراہ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے سیکریٹری جنرل ہیں۔ اور یہ ایک فوجی نہیں، قومی جمہوری انقلاب ہے جو افغانستان کی سب سے بڑی اور مقبول سیاسی جماعت پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی قیادت میں آیا ہے۔
ماضی میں افغانستان کے اندر جو سیاسی تبدیلیاں ہوتی رہی ہیں ان کے بارے میں ہماری معلومات بہت محدود رہی ہیں۔ افغانستان کے عوام کی معاشی، سماجی و ذہنی پسماندگی کے اسباب دراصل معاشرے میں موجود طبقات کے فطری تضادات، ظاہر شاہ کے 40 سالہ دورِ اقتدار اور اس کے بعد سردار داؤد کے 5 سالہ حکومت میں پیوست ہیں۔
افغان انقلاب سے ہماری عدم واقفیت کا ایک اہم سبب یہ بھی رہا ہے کہ اول تو افغانستان میں پریس نہ ہونے کے برابر تھا اور جو چن
اخبارات و جرائد نکلتے تھے وہ حکومت کے کنٹرول میں تھے۔ مخالف سیاسی جماعتوں کے جو رسالے، کتابچے زیرِ زمین شائع ہوتے تھے وہ بھی پشتو یا فارسی میں تھے اور ایک محدود تعداد میں شائع ہوتے تھے۔
یہی وجہ ہے کہ 27 اپریل کو جب افغانستان میں ایک قومی جمہوری انقلاب کا مژدہ سنایا گیا تو بیرونی دنیا کے لیے یہ ایک ڈرامائی واقعہ تھا۔
یہاں تک پہنچ کر میں اپنی اس تحریر کو سمیٹ رہا ہوں۔ 10 سال بعد بھی صحافیوں کے ایک گروپ کے ساتھ جولائی 1989ء میں میرا پھر کابل جانا ہوا مگر ‘طور خم’ نہیں بلکہ دہلی کے راستے۔ ایسا اس لیے ہوا کیونکہ ڈیورنڈ لائن کے دونوں طرف افغان اور عرب جنگجوؤں نے ڈیورنڈ لائن مسمار کردی تھی۔ مگر ہاں کابل میں جلاوطن اجمل خٹک سے ملاقات اور پھر ان کے توسط سے افغان صدر نور محمد ترک زئی سے ملاقات آئندہ کے لیے اٹھا رکھتا ہوں۔
( بشکریہ ڈان نیوز)
Comments are closed.